جامعہ دار العلوم کراچی میں اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے زیر اہتمام تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا ایک اجتماع موجودہ وبائی صورت حال پر غور کرنے کیلئے منعقد ہوا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج بتاریخ ۲۰ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۴ اپریل ۲۰۲۰ء جامعہ دار العلوم کراچی میں اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے زیر اہتمام تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا ایک اجتماع موجودہ وبائی صورت حال پر غور کرنے کیلئے منعقد ہوا، جس میں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان ، جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام (س) ، عالمی مجلس تحفّظ ختمِ نبوت ، جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث،جماعت غرباء اہلِ حدیث وغیرہ کے نمائندہ علماء کرام نے شرکت کی۔
اس موقع پر ٹیلیفون کے ذریعے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، امیر جمعیت علماء اسلام ، مولانا ساجد میر صاحب امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، جناب لیاقت بلوچ صاحب اور حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب، ناظم وفاق المدارس العربیہ نے بھی فون پر اجتماع سے خطاب کیا، اور منظور شدہ اعلامیہ کی تاکید کی جو درجِ ذیل ہے:
کرونا وائرس کا مسلسل پھیلاؤ اور تباہکاری جہاں خالقِ کائنات کی قدرت کا مظاہرہ ہے، وہاں نسلِ انسانی کی آزمائش اور ابتلاء بھی ہے کہ وہ اپنی تمام تر ترقی اور عروج کے باوجود قدرتِ خداوندی کے سامنے بے بس ہے اس لئے سب سے پہلے تو اپنی عاجزی کا اظہار اور کائنات کے خالق کی برتری کی عظمت کا اعتراف ہم سب کی ذمہ داری ہے، ایک مسلمان کیلئے ان حالات میں کرنے کا سب سے بڑا کام گناہوں سے توبہ واستغفار، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و سنت کے مطابق اپنے طرزِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا ربّ العالمین۔
وبا سے متاثر ہونے والے اور لاک ڈاؤن سے بے روزگار ہونے والے سب لوگوں کی حتی الوسع مدد ہماری قومی ذمہ داری ہےاور حکومت یا تنظیمیں یا افراد جو اس ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں، اور اس کام کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام اور اللہ رب العزت سے اس وبا کو ٹال دینے کی مسلسل التجا ہر شخص کو کرتے رہنی چاہئے اور ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرنی چاہئے۔
نیز حکومت یا اطباء کی طرف سے جو احتیاطی ہدایات دی جارہی ہیں ، ان پر سب کو عمل کرنا ضروری ہے۔
احتیاطی تدابیر میں میل جول کم کرنا ،بلاضرورت اجتماع سے منع کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہےجس کی سب کو پابندی کرنی چاہئے مگر لازمی سروسز میں کام کو معطل نہیں کیا جاسکتا اسی لئے ضروری کام کو جاری رکھنے کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ مثلاً سپر مارکیٹ، بنک اور ضروریات کی تقسیم کی ٹیم کو کام کی اجازت ہے، لیکن اس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا، اور کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم وہاں جمع رہتا ہے، اس میں لوگوں کو مناسب فاصلے کے ساتھ ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرایا جائے۔ اسی طرح ایک مسلمان کیلئے مسجدوں میں نماز یا جماعت اور جمعہ کا اجتماع ایک اہم ضرورت ہے، خاص طور پر رمضان میں مسجد کی حاضری اور نماز با جماعت نہ صرف ایک ضرورت ہے، بلکہ اس آزمائش کے موقع پر خاص طور سے رجوع إلی اللہ ہی وبا کو دور کرنے کا ایک اہم سبب ہوسکتا ہے، اس کو حتی الامکان احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر کا دائرہ اور دورانیہ ہر جگہ، موقع، محل، تقاضائے وقت اور وہاں کی ضروریات کے مطابق اختیار کیا جانا چاہئے۔ اس کیلئے یہ اجتماع موجودہ حالات میں مندرجہ ذیل طریقِ کار کا مطالبہ کرتا ہے:
(۱) احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں، اُن میں پنج وقتہ نماز باجماعت ، نمازِ جمعہ جاری رہے، تین یا پانچ افراد کی پابندی قابلِ عمل ثابت نہیں ہورہی ۔
(۲) جو لوگ بیمار ہیں، یا وائرس سے متاثر ہیں ، یا انکی عیادت پر مامور ہیں، وہ مسجد میں نہ آئیں، ان شاء اللہ انہیں گھر پر نماز میں بھی جماعت کا ثواب ملے گا۔
(۳) معمّر حضرات کے بارے میں چونکہ اطباء کی رائے یہ ہے کہ قوتِ مدافعت کمزور ہونے کی بناء پر وبا کا نشانہ بن سکتے ہیں، اس لئے وہ اپنے آپ کو مسجد میں آنے سے معذور سمجھیں۔
(۴) مسجدوں سے قالین ہٹا کر اُن کو ہر نماز کے بعد حتی الامکان جراثیم کش ادویہ سے دھویا جائے۔
(۵) مسجدوں کے دروازے پر حتی الامکان سینی ٹائزرز لگانے کا اہتمام کیا جائے، اور اس کیلئے محلّے کے اہلِ خیر اس کا انتظام اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر کریں۔
(۶) مسجد کی صف بندی میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ دو صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ ہو، اور ایک صف میں بھی مقتدی مناسب فاصلے کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگرچہ معمول کے حالات میں ایسا کرنا مکروہ ہے، اور ترجیحاًمکروہِ تحریمی ہے، تاہم عذر کی بناء پر ان شاء اللہ یہ کراہت باقی نہیں رہے گی۔
(۷) تمام حضرات وضو گھر سے کر کے آئیں۔
(۸) مقتدی حضرات ہاتھ صابن سے دھو کراور حتی الامکان ماسک پہن کر آنے کا اہتمام کریں۔
(۹) سنتیں بھی تمام لوگ گھر سے پڑھکر آئیں، اور باقی سنتیں اور نفلیں گھروں میں جا کر پڑھیں۔
(۱۰) نمازِ جمعہ میں اردو تقریر بند کردی جائے۔ اگر ضرورت ہو تو صرف پانچ منٹ کیلئے لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے۔
(۱۱) خطبۂ جمعہ کو صرف ضروری حمد و صلو ۃ ، تقویٰ کے بارے میں ایک آیت ، اور مسلمانوں کیلئے مصائب سے نجات کی دعاء پر اکتفا کیا جائے۔
(۱۲) نماز کے بعد بھی تمام حضرات ہجوم کرنے کے بجائے مناسب فاصلوں سے گھروں کو جائیں۔
(۱۳) ائمۂ مساجد عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کریں، البتہ ان پر عمل کرانے کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہے، اس کیلئے ائمہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔
حکومت ِ سندھ نے کہا تھا کہ مساجد کے ائمہ کرام اور مسجد انتظامیہ کے خلاف پہلے سے درج ایف آئی آرز غیر مشروط پر واپس لی جائیں گی اور آئندہ ان کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جائیں گی، لیکن حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے باہمی اعتمادواتحاد مجروح ہوا۔ آئندہ ایسی کارروائیوں کا اعادہ نہ کیا جائے اور حسبِ وعدہ عمل کرتے ہوئے تمام ایف آئی آر واپس لی جائیں ، اور گرفتار شدہ ائمہ کرام کو فوری طور پر رہا کیا جاے۔
یہ اجلاس ملک کے میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، اور ان کی اور پوری قوم اور انسانیت کی سلامتی کیلئے دعاؤں کی اپیل کرتا ہے۔
اجلاس یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر اپنی خدمات انجام دے اور ہر طرح کی سیاسی، گروہی ، فرقہ وارانہ اور عصبیت کا بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے فرائض انجام دے۔
ان امور کی تنفیذ اور عمل درآمد کیلئے تمام شریک اداروں اور جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
اراکینِ کمیٹی درج ذیل ہیں:
۱) حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب اتحاد تنظیماتِ مدارس
۲) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب وفاق المدارس العربیۃ
۳) حضرت مولانا راشد محمود سومرو صاحب جمعیۃ علماء اسلام
۴) مولانا عبد الوحید صاحب رابطۃ المدارس
۵) حضرت مولانا حافظ محمد سلفی صاحب جماعت غرباء اہلِ حدیث
۶) حضرت مولانا شاہ اویس نورانی صاحب جمعیت علماء پاکستان
۷) جناب محمد حسین محنتی صاحب جماعت اسلامی
۸) جناب مرزا ایوب بیگ صاحب تنظیم ِ اسلامی
۹) حضرت مولانا یوسف قصوری صاحب مرکزی جمعیتِ اہل حدیث
۱۰) حضرت مولانا اعجاز مصطفیٰ صاحب عالمی مجلس تحفّظ ختمِ نبوت
۱۱) حضرت مفتی عابد مبارک صاحب تنظیم المساجد ، پاکستان
۱۲) حضرت مولانا محمد عادل خان صاحب جامعہ فاروقیہ، کراچی

0