تعارف مرکز الاقتصاد الاسلامی
اس اہمیت کے پیش نظر شروع سے ہمارے اکابر کی تحریری اور عملی طور پر یہ کوششیں رہی ہیں کہ موجودہ نظام بینکاری کو سود سے پاک کرکے ایسا متبادل نظام قائم کیا جائے جس کے ذریعے اس حرام معاملہ سے نجات مل سکے۔
مرکز الاقتصاد الاسلامی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کی بنیاد ۲۲صفر ۱۴۱۳ھ (۲۲/اگست ۱۹۹۲ء) میں بیت المکرم مسجد گلشن اقبال بلاک۸ کراچی کے احاطہ میں رکھی گئی۔
الحمد للہ مرکز الاقتصادالاسلامی رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم اور نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی سرپرستی اور پر عزم مثالی قیادت میں کئی سالوں سے وطن عزیز پاکستان میں اور بیرون ملک اسلامی بینکاری اور اسلامی معاشی نظام کے احیاء اور فروغ کیلئے مصروف عمل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ سودی نظام معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظام معیشت کو شرعی بنیادوں پر قابل عمل اسلامی بینکاری کے نمونہ پیش کرنے اور اسے شریعت کے مطابق جاری رکھنے کی کاوشوں میں مرکزالاقتصادالاسلامی ایک کلیدی کردار ادا کررہاہے تو غلط نہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ الحمدللہ اس وقت دنیا کے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ربافری بینکنگ سسٹم یا جسے ہم اسلامی بینکاری نظام کہتے ہیں وہ اب تیزی کے ساتھ تر قی کررہاہے اور دنیا کے صف اول کے مالیاتی اداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہاہے۔۔
مرکز الاقتصادالاسلامی کے اغراض و مقاصد
۱۔ اس شعبہ کا بنیادی مقصد اسلامی معاشی نظام کا احیاء اور فروغ ہے تاکہ جو بینکار پاکستان اور پوری دنیا کے اسلامی بینکوں میں کام کر رہے ہیں ان کو اسلامی نظام معیشت کی تربیت فراہم کی جائے۔
۲۔ تمام کاروباری، مالی، معاشرتی اور معاشی ماحول کو ایک ایسے عظیم پلیٹ فارم پر جمع کرنا جہاں شرعی اصولوں کی روشنی میں ان معاملات کو عملی زندگی میں تطبیق مل سکے۔
۳۔ موجودہ معاشی نظام میں سود سے پاک اسلامی بینکاری کے فوائد کی سربلندی اور ترقی کیلئے اسلامی بینکنگ اور اسلامی بیمہ کرنے والی کمپنیوں کے وجود کا مطالبہ کرنا۔
۴۔ مذکورہ بالا مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بینکنگ، فائنانس اور معیشت کے میدانوں میں بنیادی اور جدید طریقوں کو متعارف کرانا۔
۵۔ ایسے علمائے کرام اور مفتیان عظام کی جماعت تیار کرنا جو اسلامی نظام معیشت سے بھی باخبر ہوں اور وہ مستند شریعہ گائیڈلائن اسلامی بینکوں کو بھی فراہم کرسکیں بلکہ ان کے مالی معاملات کی شرعی اعتبار سے جانچ پڑتال اور آڈٹ کرسکیں۔
۶۔ لوگوں کی ایسی جماعت تیار کرنا اور انکی ذہن سازی کرنا جو کنونیشنل بینکنگ سسٹم کو اسلامک بینکنگ سسٹم میں تبدیل کرسکیں۔
۷۔ اسلامک بینکنگ سسٹم اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو متعارف کرانے کے لئے موقع بموقع مختلف کورسز کا انعقاد کرنا۔