>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

اسلامی پاکستان میں اسلام قبول کرنے پر پابندی

انصار عباسی

اسلامی پاکستان میں اسلام قبول کرنے پر پابندی

اسلام نے جمعہ کادن مسلمانوں کے لیے مبارک بنایا۔ اسے ہفتہ کے دوسرے تمام دنوں پر فضیلت دی۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی روز قیامت آئے گی۔ جمعہ کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن بھی کہا گیا۔ اس روز درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ترغیب دی گئی۔ ہمیں تعلیم دی گئی کہ اس روز نہا دھو کر، خوشبو لگا کر، مسواک کر کے جمعہ کی نماز ادا کریں۔ جمعہ کے دن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جس میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود مغرب کی نقالی میں پاکستان میں بہت سوں نے گزشتہ جمعۃ المبارک کو Black Friday کے طور پر منایا۔ اسلام نے جس دن کو ہمارے لیے مبارک کہا ہم نے مغرب کی نقل میں اْسے بلیک فرائڈے کے طور پر منایا۔ اشتہارات، موبائل ایس ایم ایس، بینرز اور دوسرے ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے بلیک فرائڈے کی خوب تشہیر کی گئی اور بازاروں مارکیٹوں میں کاروباری حضرات نے اس مغربی رواج کو اپناتے ہوئے بڑی بڑی سیلز کا اعلان کیا۔ ان کاروباریوں کو رمضان کے موقع پر تو یہ توفیق نہیں ہوتی بلکہ الٹا اْس موقع کو خوب مال کمانے کے لیے قیمتیں بڑھادیتے ہیںلیکن کرسمس سے جڑے بلیک فرائڈے کے اس غیر اسلامی رواج کے بڑھاوے کے لیے اپنا مال پچاس فیصد تک بھی سستا بیچا۔ اس موقع پر ہم پاکستانی مسلمانوں کی بڑی تعداد بغیر سوچے سمجھے بڑی تعداد میں گھروں سے نکلی، رشتہ داروں دوستوں کو بلیک فرائڈے سیلز کے بارے میں بتایا اور بڑھ چڑھ کر شاپنگ کی۔ کتنی شرم کی بات ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اسلام کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور مغرب کی تقلید میں اتنے اندھے ہو گئے کہ حق و باطل اور صحیح غلط کی تمیز ہی بھول گئے۔ حکومت نے بلیک فرائڈے منانے والوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا، پارلیمنٹ بھی اس مسئلہ پر خاموش رہی، عدلیہ کے پاس تو ایسے مسئلوں کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیں اور جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ تو جیسے مغربی کلچر کے فروغ کے لیے ہی دن رات کام کر رہا ہے۔
لیکن حکومتوں، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے کوئی کیا توقع رکھے انہوں نے تو سندھ میں اسلام قبول کرنے پر ہی پابندی لگا دی جبکہ میڈیا اور عدلیہ اس معاملہ پر بھی خاموش ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سندھ اسمبلی نے ایک ایسا قانون پاس کیا جو خلاف شریعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ اسلام کسی غیر مسلم کو زور زبردستی مسلمان بنانے کے خلاف ہے۔ اسلام میں تو غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ لیکن سندھ اسمبلی کو نجانے کیا سوجھی کہ یہ بل پاس کر دیا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کسی بھی مذہبی اقلیت کا کوئی رکن اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا۔ بظاہر اس قانون کا مقصد سندھ میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو زبردستی مسلمان بنانے کی شکایات کو روکنا ہے لیکن عملاً جو کیا گیا وہ سمجھ سے بالاتر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بلاشبہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنا رہا ہے تو اْسے سزا دے لیکن یہ کیسا قانون ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی فرد اسلام قبول کر ہی نہیں سکتا۔ کوئی پوچھے اگر والدین نے اسلام قبول کر لیا تو اْن کے بچے چاہے وہ دو چار یا پانچ سات سال کے ہوں تو اْن کا تعلق اقلیتی مذہب سے ہی رہے گا۔ اور پھر اگر کوئی پندرہ، سولہ، سترہ سال کا بالغ لڑکی لڑکا اپنی سمجھ سے اسلام قبول کرتے ہیں تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ واہ سندھ حکومت نے سیکولرازم کے جنون میں کیا قانون پاس کیا!!! اس قانون کے متعلق کچھ علماء حضرات کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس قانون کو اپنے ایک حالیہ بیان میں خلاف شریعت قرار دیا اور کہا کہ یہ سندھ اسمبلی اور حکومت کا یہ اقدام قانون و انصاف کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جا سکتا اور ایسا کرنا ناجائز ہے اس لیے اس پر پابندی حق بجانب ہے لیکن اگر کوئی سمجھ دار بچہ جو دین و مذہب کو سمجھتا ہو اسلام لے آئے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنے کاحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت کی رو سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں اور بعض اوقات اْس سے بھی پہلے بالغ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہو کر شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے تو اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور بدترین زبردستی ہے۔ تقی صاحب نے مزید کہا کہ اس قسم کے زبردستی کا قانون کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہو گا، چہ جائیکہ ایک اسلامی جمہوریہ میں اس کو روا رکھا جائے۔ انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام قبول کر لیتے ہیں، تو کیا ان کے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور ہوں گے کیونکہ انہیں اس عمر سے پہلے اسلام قبول کرنے پر قانونی پابندی کا سامنا ہو گا۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کو بغیر سوچھے سمجھے محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لیے پاس کر دیا گیا ہے۔ مفتی صاحب نے عدلیہ خصوصاً وفاقی شرعی عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر ازخود نوٹس لے کر اسلامی تعلیمات کے مطابق اس قانون کا جائزہ لے کر اسے غیر موثر قرار دیں۔ گویا اسلام قبول کرنے پر پابندی کا جو کام مغرب نے نہ کیا، جو ہندوستان نہ کر سکا وہ پاکستان کی سندھ اسمبلی اور حکومت نے کر دیا۔ ’’یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ کراچی
۲۸؍نومبر ۲۰۱۶ ء

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More