>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

ملکی تعلیمی اداروں کا نصاب ونظام

حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب
استاذ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی

ذکروفکر

ملکی تعلیمی اداروں کا نصاب ونظام

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

قوم کی فکری ونظریاتی تشکیل ، علمی وعملی مہارت اور ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لئے قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو معاشرے کا جوہر قابل بنانے میں تعلیمی نصاب اساسی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، ذمہ دار حکومتیں اس کو ملکی دفاع کی طرح اہمیت دیتی ہیں بلکہ کسی بھی ملک کے مؤثر دفاع کے لئے تعلیمی نظام ہی مؤثر بنیاد فراہم کرتا ہے ، قومی تقاضوں سے ہم آہنگ عمدہ تعلیم وتربیت سے ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو مضبوط فکری بنیاد پر کھڑی ہو۔ امانت ودیانت کے زیور سے آراستہ ہو اور جو عمدہ معاشرتی اور اخلاقی قدروں سے ملک وملّت کا تشخص اجاگر کرے تاکہ جب ملکی اداروں کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں آئے تو ہر طرف ترقی کے حیران کن مناظر سے قلب ونظر طمانینت اور مسرت کے جذبات سے سرشار ہوں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر کسی جگہ اپنے خاندان اور ملک وملّت کے لئے کوئی قابل فخر شخصیت ہے تو یقینی طورپر اس کے پیچھے بہتر تعلیم وتربیت کی جدوجہد کارفرماہے کہ رب کائنات نے اِس دنیا کو دارالاسباب بنایاہے ، جس طرح کا طرزعمل ہوتا ہے اسی کے مطابق نتائج سامنے آتے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم اور ہرریاست تعلیم کو ترجیحی طورپر سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے کہ قومی تشخص اور ملکی بقاء کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور یہ نصب العین بھی پیش نظر ہونا ہے کہ زمام کار اچھے ہاتھوں اور فرض شناس افراد کو منتقل ہو،اس کے مقابلے میں جب اداروں اور ملکوں پر نامعقول عناصر قابض ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے مفسدانہ طرز عمل سے وطن اور باشندگان وطن کے لئے ایسے وبال جان بن جاتے ہیں کہ دشمن سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک یہاں سے وہاں تک شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔
ہمارا ملک اپنی ستر سالہ زندگی میں جہاں سیاسی ابتری کا شکاررہا ہے ،وہیں تعلیم کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً بننے والی حکومتوں نے ہمیشہ غفلت برتی اور اِ س اہم قومی فریضہ کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی،یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں مختلف انداز فکر کے حامل سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے سرگرم عمل ہیں اوربیک وقت مختلف نظامہائے تعلیم رائج ہیں جوفرد اور معاشرے کو مضبوط اخلاقی ، دینی اور عملی بنیادوں پر اٹھانے ،قومی تشخص اجاگر کرنے اور متعین مقاصد پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے الگ الگ اہداف کے لئے کام کررہے ہیں جبکہ ریاستی سطح پربظاہر کوئی ایسی مشنری بھی موجود نہیںہے جو ان اداروں کی سرگرمیوں اور حاصل ہونے والے تنائج پر ، وسیع تر ملّی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے نظر رکھے۔
جہاں تک سرکار کے زیر انتظام چلنے والے پرائمری ، مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کا معاملہ ہے تو یہ نظام سیاسی اغراض کی بناء پراب صوبائی حکومتوں کے بندوبست میں آگیا ہے ، جب وفاق کے زیر انتظام تھا جب بھی کوئی نمایاں نتائج حاصل نہیں ہورہے تھے بلکہ بدعنوانی ، اقربا پروری اور وقت گذاری جیسے مجرمانہ حالات اُس وقت بھی تھے جبکہ اب اس تبدیل شدہ صورتحال میں حالات مزید بدترین ہوگئے ہیں کہ ان اداروں کے لئے رجال کار کی فراہمی تجربہ اور صلاحیت کی بنیاد پر نہیں ، رشوت ،قرابت اور سیاسی تعلق کی بنیاد پر ہے چنانچہ ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے کہ سکول کی عمارت میں کسی "صاحب "کے جانورکھڑے ہیں اور متعلقہ عملے کو بشمول ٹیچرز، گھر بیٹھے تنخواہیں پہنچ رہی ہیں۔یہ سب حالات افسوسناک ، سنگین اور نسل کشی کے مترادف ہیں اوراس ملک کے دروبست سے وابستہ ذمہ داروں کو ترجیحی طورپر، اہم ترین فریضہ سمجھ کر ان کی اصلاح کی طرف توجہ دی جانی چاہیئے ۔
نصاب تعلیم سے متعلق پچھلے دنوں باخبر دانشوروں کی طرف سے مزید حیران کن اور ملک وملت کے لئے تباہ کن سرگرمیوں کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوئیں کہ ایک امریکی ادارہ(US.CIRF) جو عالمی سطح پرمذہبی آزادی اور تعلیم کے نام پر تشکیل دیا گیا ہے یہ ادارہ ایک مقامی این جی او پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (P.E.F)کے تعاون سے پاکستان کے نطام ونصاب تعلیم پر 9/11 کے بعد سے پوری سرگرمی کے ساتھ کام کررہا ہے اور پچھلے آٹھ دس سال کے عرصے میں اس نے سرکاری نصاب تعلیم کی کتابوں میں سے ہر اس مضمون ، پیراگراف اور اسلوب کو خارج کرنے کی رپورٹ تیار کی ہے جس سے اسلام کی حقانیت ، ملّی رجحان اور اپنی تاریخ سے وابستگی کا تأثر ملتا ہو، اطلاع کے مطابق کے پی کے اور پنجاب کے صوبوں میں نصاب کی بہت سی کتابوں میں یہ تبدیلی عمل میں بھی آچکی ہے جبکہ اس رخ پر مزید کام جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے اس ملک کو سیکولر بنانے ، مسلم گھرانوں کے بچوں کا رشتہ اپنے دین اور تاریخ سے کاٹنے اور قیام پاکستان کے عوامل سے بے خبر رکھنے کی کوششیں زور شور سے جاری ہیں ، بلکہ حکومت میں موجود لامذہب عناصر کی مدد سے اس میں خاصی حدتک پیش رفت بھی ہوچکی ہے ۔
رپورٹ میں نصابی کتب کے مختلف مضامین سے متعلق جو اعتراضات اور شکایات ہیں ان کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
___ ” سرکاری اسکول کی نصابی کتابیں جو اکتالیس لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچتی ہیں ان میں اسلام کو واحد سچا مذہب کیوں کہا گیا ہے”___ معاشرتی علوم ، مطالعہ پاکستان اور تاریخ کے نصاب میں وہ تاریخ پڑھائی جارہی ہے جو پاکستان کے ایک قومی اور اسلامی تشخص کو فروغ دیتی ہے” ___ یہ بھی قابل اعتراض ہے کہ___ نصابی کتاب میں محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور محمود غزنوی کے حملوں کا ذکر کیوں کیا جاتا ہے ___ رپورٹ میں یہ سفارش بھی ہے کہ اسلام کو بطور واحد ، صحیح ایمان ہونے کو درسی کتب سے ختم کیا جانا چاہئے___رپورٹ میں اس کا بھی شکوہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں اسلامی عقیدہ پر زور کیوں دیا جاتا ہے ، اس پر بھی اعتراض ہے کہ نصاب میں اسلام کو پاکستان کی بنیادی خصوصیت اور پاکستان کی شناخت کے طورپر کیوں پیش کیا جاتا ہے___ ان تاریخی حقائق پر بھی ناگواری ہے اور نصاب سے اخراج کی فہرست میں ان کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ اس میں ہندو سماج پر تنقید کیوں کی گئی ہے ___ "ہندو سماج چار مستقل ذاتوں میں تقسیم ہوگیا، حتی کہ آج بھی ہندو سماج نے اس ظالمانہ اور بے رحم نظام سے چھٹکارا نہیں پایا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے ___ اور نصاب کی "اصلاح”کرنے والے کمیشن اور این جی او اس حوالہ کو بھی کیسے نظر انداز کرسکتی تھی جہاں نصابی کتاب میں برصغیر پر انگزیز استعمار کے تسلط کا اور باشندگان ملک کے ساتھ اس کے طرز عمل کا ذکر ہے ، چنانچہ ایک نصابی کتاب میں برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے عنوان سے ایک مضمون میں درج یہ تاریخی حقیقت بھی عدم برداشت کے زمرے میں قرار دی گئی ہے___ ” عیسائی پادری نے مقامی لوگوں کو طاقت کے ذریعے بھی عیسائیت اختیار کروانے کی کوشش کی ،جیسے جیسے وقت گزرا لوگوں نے اپنے مذہبی امور میں انگریزوں کی مداخلت کو محسوس کیا،مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں ماراگیا تھا ان کی املاک منجمد کردی گئیں انہیں نوکریوں سے برطرف کردیاگیا، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ انگریزوں کا مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے ساتھ مشفقانہ رویہ تھا وہ جانتے تھے کہ اگر مؤخرالذکر ترقی کرے تو وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کو تجارت تعلیم اور دیگر شعبوں میں پسماندہ رکھنے کی کوشش کی "۔
یہ چند سرسری مثالیں ہیں ،رپورٹ تو پچاس سے زیادہ صفحات پر مشتمل ,بہت مفصل ہے جس میں بڑی کوشش ، عرق ریزی اور گہرائی کے ساتھ اردو، تاریخ ، مطالعہ پاکستان، معاشرتی علوم اور دینیات سے متعلق نصابی کتابوں کاخوردبینی جائز ہ لے کر ایسے تمام مضامین ، قرآنی آیات اورپیراگراف جونظریاتی تعلیم وتربیت کا اثر رکھتے ہیں اور مسلمان بچے کو اپنی تاریخ سے روشناس کراتے ہیں اورجو برصغیر میں اسلام بمقابلہ ہندوازم ،مسلمان اور انگریز کے تاریخی ، مذہبی اور سیاسی حالات ومعلومات پر مشتمل ہیں ، ہر نصابی کتاب سے مفصل فہرست مرتب کرکے ایسے کمیشن کی نظر میں ایسے مضامین نصابی کتب میں قابل برداشت نہیں ہیں اس کے لئے کمیشن اور این جی او نے بے دریغ مالی وسائل اورہر طرح کا حربہ بروئے کار لاکر جزوی طورپراپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی ہے ، جبکہ مزید کام جاری ہے ۔
مسلمانان پاکستان کو ہوشیار ہونا چاہیئے کہ جہاں اس وطن کی جغرافیائی سرحدوں پر دشمن تاک میں ہے وہاں اس قوم کی فکری ، تاریخی اور دینی بنیادوں کو بھی مسمار کرنے کے لئے ہرطرح کی تیاری ہوچکی ہے ۔سرکاری نصاب سے اسلامی معتقدات ، اسلامی تاریخ ، مسلم شخصیات اور ماضی میں اسلام اور کفر کی معرکہ آرائی کو نصاب سے نکالنے کی یہ تحریک بڑی راز داری کے ساتھ مؤثر منصوبہ بندی سے سرگرم عمل ہے ۔یہ تحریک ملک وملّت کے لئے ایٹم بم سے زیادہ تباہ کن ہے ، فوری طورپر اگر اِ س کا سدباب نہ کیا گیا تو صورتحال قابو میں نہیں رہے گی ۔
ہماری درخواست ہے کہ اس ملک کے بہی خواہ نئی نسل کو عملی اور فکری ارتداد سے بچانے کے لئے آگے آئیں ___ ہمارے دینی اور سیاسی قائدین ،دین حق کے علمبردار اور ملک وقوم کے لئے مخلص باشندگان وطن اپنی اولاد کو دین سے بیگانہ کرنے ، ضمیر فروش بنانے اور عالم کفر کا تابع مہمل بنانے کی ان مکروہ تحریکات کے خلاف کب سوچیں گے اور کب اصلاح حال کے لئے کمر بستہ ہوں گے ؟
مولائے کریم ہر طرح کے فتنوں اور سازشوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین۔

٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More