>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

سندھ اسمبلی کا ناقابل قبول بل

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

سندھ اسمبلی کا ناقابل قبول بل
ایک بیان جو ذرائع ابلاغ کو جاری کیا گیا

آج کے اخبارات کے مطابق سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے ایک بل منظور کیا ہے جس کی رُو سے کسی غیر مسلم کے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیدیا گیا ہے ۔ اسلام لانے پر پابندی کا یہ قانون شریعت اسلامیہ اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مرادف ہے ۔ یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی رُو سے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا ہرگز جائز نہیں ہے ، اور اس پر پابندی حق بجانب ہے ، لیکن دوسری طرف برضا ورغبت اسلام لانے پر پابندی لگا کر کسی کو دوسرے مذہب پر باقی رہنے کے لئے مجبور کرنا بدترین زبر دستی ہے جس کا نہ شریعت میں کوئی جواز ہے ، نہ عدل وانصاف کی رُو سے اسکی کوئی گنجائش ہے ۔ اسلام کی رُو سے اگر کوئی سمجھدار بچہ جو دین ومذہب کو سمجھتا ہو، اسلام لے آئے ، تو اسکے ساتھ مسلمانوں جیسا سلو ک کرنے کا حکم ہے ۔ نیز اسلامی شریعت کی رُو سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں ، بلکہ بعض اوقات اُس سے پہلے بھی بالغ ہوسکتا ہے ۔ ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہوکر شرعی احکام کا مکلف ہوچکا ہے ، اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور بدترین زبردستی ہے۔اس قسم کی زبر دستی کا قانون غالباً کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہوگا ، چہ جائیکہ ایک اسلامی جمہوریہ میں اسکو روا رکھا جائے۔ نیز اٹھارہ سال کے بعد اسلام قبول کرنے کے لئے اکیس دن کی مہلت دینا بھی نا قابل فہم ہے ۔ کیا اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس مدت میں اسکے اہل خاندان اسے دھمکاکر اسلام لانے سے روکنے میں کامیاب ہو سکیں ؟ پھر سوال یہ ہے کہ اگر دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں ، تو کیا اس قانون کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ انکے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور کئے جائینگے ، کیونکہ انہیں اس عمر سے پہلے اسلام لانے کی اجازت نہیں ہے ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون اسکے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے ۔ میں عام مسلمانوں ، دینی اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس شرمناک قانون کو منسوخ کروانے کے لئے اپنا دینی فریضہ ادا کریں ۔ وفاقی شریعت عدالت سے بھی مطالبہ ہے کہ اُسے ازخود نوٹس لے کر کسی قانون کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کا جو اختیار حاصل ہے ، اس قانون کے بارے میں اپنے اس اختیار کو استعمال کرکے اسے غیر مؤثر قرار دے ۔

۲۴؍صفر المظفر ۱۴۳۸ ھ (۲۵؍نومبر ۲۰۱۶ ء)
٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More