>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

اُمت مسلمہ اور’’ امریکی اعتدال پسندی‘‘کی سازش

عربی تحریر __ ڈاکٹر عمار نصّار
ترجمہ:عبدالوہاب سلطان دیروی

اُمت مسلمہ اور’’ امریکی اعتدال پسندی‘‘کی سازش

اسلام کے خلاف دشمنوں کی سازشیں کوئی نئی بات نہیں ،ہمیشہ سے اسلام دشمن طاقتیں نت نئے طریقوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بُنتی چلی آرہی ہیں ۔۔۔ تاہم اب ایک عرصہ سے عسکری ہتھیاروں سے زیادہ فکری اور تہذیبی جنگ چھیڑ کر نئے انداز سے مسلمانوں کی نفسیات کو زیر کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے ،مختلف انداز کی اِس یلغار سے مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی اقدار وروایات سے ہاتھ دھوکر "فکری ارتداد” کا شکار ہوچکا ہے ۔۔
پچھلی چند دہائیوں سے مغرب کی طرف سے اسلام دشمنی کے اقدامات اور طریقۂ واردات میں نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں ، حال ہی میں شائع ہونے والے ایک امریکی تھنک ٹینکس (Rand Corporation)نامی ادارہ کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ میں جس نئی اسٹریجٹی کا سراغ ملتا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب عالم کفر براہ راست پوری امت مسلمہ کی اسلامی شناخت ، نظریاتی اورفکری تشخص پر تیشہ چلاکر اس کومجروح کرنے پر تُل گیا ہے ، اور اس غرض کے لئے”اعتدال پسندی ” (Redicalism)کی خود ساختہ اصطلاح کے پردے میں اس کا ایک ہمہ گیر اور دور رس منصوبہ بھی تشکیل دیا جا چکا ہے ، مندرجہ ذیل تحریر اسی رپورٹ کے بعض اہم گوشوں کوواضح کرتی ہے۔
امریکی سیاست کے موجودہ نئے چہروں کی پشت پر بھی اسی نئی پالیسی کی دسیسہ کاری کارفرماہے ، بعض ذرائع کے مطابق اس "ریڈیکل اسلام ” کے منصوبہ کو تشکیل دینے والا ذہن اب نئے امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔
امت مسلمہ کو اپنے فکری وعملی تشخّص کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہونا ضروری ہے ، اور اس کے سدّباب کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر حتی الوسع کوشش کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے ، اسی ضرورت کے تحت زیر نظر رپورٹ ایک عرب تجزیہ نگار کی مرتب کردہ ہے جس کا اردو ترجمہ دورئہ حدیث کے طالب علم مولوی عبدالوہاب کے قلم سے قارئین اور دینی حمیت رکھنے والوں کی آگاہی کے لئے پیش خدمت ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)
امریکی ادارہ ’’رانڈکارپوریشن( (Rand corporationکی رپورٹ پرایک نظر
یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے ،جس کوامریکاکا فوجی ادارہ سپورٹ کرتاہے ،اوراس کے ساتھ مالی تعاون بھی کرتاہے،جس کے بل بوتے پراس ادارہ کا سالانہ بجٹ تقریباً ’’1500,00,000‘‘ (۱۵ کروڑ) ڈالرکا ہے ۔
رانڈ کارپوریشن نامی اس ادارے نے ۲۰۰۷؁ء کے حوالے سے اپنی رپورٹ شائع کی ہے ،یہ رپوٹ امریکہ کی خود ساختہ ’’اعتدال پسندی‘‘ کے نام نہاد دعوؤں کے پردے میں مسلمانانِ عالم کے ساتھ باہمی معاملات سازی، اوران کی اعتقادی،نظریاتی اورثقافتی اقدارمیں رخنہ ڈالنے کے حوالے سے طرح طرح کی نِت نئی آرائ،تجاویز اورافکار پرمشتمل ہے۔۔۔۔۔
اس رپورٹ کی اہمیت وضرورت کودوچند کرنے کیلئے اس کی ساخت پر داخت میں اُن تجربات سے بھی بھرپور استفادہ کیاگیا ہے ،جو سوشلزم کی طاقت سے نبرد آزمائی میں بروئے کار لائے گئے تھے،گویااسی قسم کی "حکمت عملی” اب اسلام اورمسلمانوں سے پنجہ آزمائی اور’’اعتدال پسند مسلمانوں‘‘ کی تیاری میں اپنائی جارہی ہے۔
رپوٹ کاخلاصہ
ذیل میں اس رپورٹ کاخلاصہ پیش کیاجارہاہے،جوبہت سی ویب سائٹوں میں شائع ہوئی ہے،جن میں خود اسی ادارے(رانڈ کارپوریشن) کی ویب سائٹ سرفہرست ہے،اصل رپورٹ انگریزی زبان میں ہے، جس کی لنک (Link) اس مقالہ کے آخرمیں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ایک لمحۂ فکریہ
یہاں یہ بات نہایت انہونی اورہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنی ذلت اورپستی کے اس مقام پرآکھڑے ہوئے ہیں،جہاں ہمارا دشمن برسرِ عام ہمیں اپنے منصوبوں سے خبردار کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔۔! اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس امت کواپنی تاریخ کے اس موڑ پرکتنا مردہ اوربے حس سمجھ بیٹھا ہے، اوربرملا ہمیں یہ باور کرارہا ہے کہ وہ کس کس طرح شب وروز اس ’’دین‘‘ کی بیخ کنی میں مصروف ہے، تاکہ اس کے کھنڈرات پر امریکی آمیزش کاحامل ایک’’جدیداسلام‘‘ متعارف کرایاجائے،جو لبرل ،سرمایہ دارانہ، یا اشتراکی ڈیزائن کاکوئی بھی اسلام ہوسکتاہے۔
ٓؑٓؑ’’اعتدال پسند مسلمانوں‘‘کی تیاری
اس رپورٹ میں بڑے زور وشور اوربڑی گستاخانہ آہنگ کے ساتھ اس بات پرزوردیاگیا ہے کہ’’اعتدال پسند‘‘((Redical مسلمانوں کی ایک ایسی مضبوط کھیپ تیار کی جائے ،جواسلام کے نِت نئے اورجدید ایڈیشن کی حامل ہو۔۔۔۔۔
آگے خود اسی رپورٹ میں بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ اِ ن مطلوبہ’’اعتدال پسندوں‘‘ کی صفات وخصوصیات کاتعین کیاگیا ہے،جن کی بنیاد پران کواس قابل سمجھا جائے گا کہ ان کاتعاون حاصل کیا جاسکے۔، مختصرالفاظ میں یہ ’’اعتدال پسند‘‘وہ لوگ ہوسکتے ہیں جوامریکی مفہوم اوراصطلاح کی روسے لبرل، سیکولراورمغرب کے ہم نواہوں،شریعت ِ اسلامیہ پرایمان سے عاری ہوں۔۔۔۔۔۔۔
اس رپورٹ میں دس نکات پرمشتمل ایک’’ امریکی معیار‘‘ بھی دیاگیا ہے،تاکہ اس کی روشنی میں یہ فیصلہ کیاجاسکے کہ کس کو’’اعتدال پسند‘‘ قراردیاجاسکتاہے اورکس کو نہیں۔۔۔۔؟
ان معیار ات پر پورے اترنے والی شخصیات کوبالآخراس امریکی ادارہ کے حضورپیش کیاجائے گا،جس پر وہ اگلے مرحلے کامنصوبہ تشکیل دے گا ،یہ منصوبہ ایسی ’’اعتدال پسندشخصیات‘‘ کے ایک نیٹ ورک کی تشکیل پرمبنی ہوگا،جوایسے ’’روایتی‘‘ یا ’’صوفیانہ‘‘اسلام پرایمان رکھتے ہوں،جو مغربی اورخصوصاً امریکی مصلحتوں سے کسی طرح متصادم نہ ہوں ۔۔۔۔ایشیا اوریورپ کی طرف واقع عالم اسلامی کے ممالک میں اس منصوبہ کی تشکیل کو غیرمعمولی اہمیت دی جائے گی۔
پالیسی کانیا رخ
اس منصوبہ میں ’’رانڈ‘‘اوردیگرامریکی تحقیقی اداروں کی رپورٹ میں یہ بات باربارسامنے آتی رہی ہے کہ ان’’اعتدال پسندوں ‘‘ کی ’’انتہاء پسندوں‘‘ کے مقابلے میں بھرپور پشت پناہی کی جائے،لیکن اس مرتبہ یعنی ۲۰۰۷؁ ء رپورٹ میں ، سب مسلمانوں کویکساں طورپر ایک ہی پلڑے میں ڈال دیاگیا ہے،جواس رپورٹ کایک نیا رخ ہے،گویا اس دفعہ ایک قدم آگے بڑھ کر ’’رانڈ‘‘ کی اس تحقیقی رپورٹ میںمحض "مسلمانوں” کے بجائے ،خود”اسلام” کوکنٹرول کرنے اور اس کی لگام کواپنے ہاتھوں میں لینے کی پالیسی اپنائی گئی ہے،تاکہ اس کے ذریعے براہِ راست’’اسلام‘‘ ہی کو( توڑمروڑکرکسی طرح) موجودہ زمانہ کے مغربی تقاضوں اورخود ساختہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنادیاجائے۔
ٓٓٓاس رپورٹ میں باوجودیکہ اُن سابقہ منصوبوں کو بھی مکرر دہرایا گیا ہے،جن کے اثرات ’’سنی ،شیعہ‘‘ خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے،سعودیہ دشمنی ،وغیرہ بہت سے مظاہر میں اس امریکی ریاست کی ترجمانی کررہے ہیں،اس کے علاوہ سوشلزم سے نمٹنے اوراُس کا بیج مارنے کے تجربہ سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ایک مرتبہ پھر مغربی دنیا ،مسلم دنیا کے بنیادی اسٹریکچر میں تبدیلی لانے کے درپے ہے، اوراسی وجہ سے اس بار رپورٹ میں ’’اسلام پسندوں‘‘ کونشانہ بنانے کے بجائے،یا ’’اعتدال پسند‘‘ اور’’انتہاء پسند‘‘ کی تفریق قائم کرنے کے بجائے سب مسلمانوں کو ایک ہی خانہ میں ڈال دیاگیا ہے، تاکہ براہِ راست’’اسلام‘‘ کی جڑ پرتیشہ چلانے کی مہم چلائی جاسکے۔۔۔
جبکہ اس سے قبل قریب میں ،مثلاً ۲۰۰۴؁ء کی جو رپورٹس’’رانڈ‘‘ نے اس وقت کی بش انتظامیہ کی نگرانی میں شائع کی ہیں، ان میں بطور خاص’’انتہاء پسند مسلمانوں‘‘ کے خلاف محاذ آرائی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے،اوراس مقصد کیلئے’’سیکولر سروسز‘‘ اور’’تمدنی اسلام کی دعوت‘‘ جیسے ذرائع کو اپنانے پر زور دیاگیا ہے، ان اصطلاحات کا مطلب امریکی نقطہ نظرسے یہی ہے کہ ان اسلامی، تمدنی معاشروں میں پنپنے والی ان تمام تر جماعتوں یا لابیوں کی حمایت کی جائے جو ’’اعتدال پسندی‘‘ یا ’’جدت پسندی‘‘ کیلئے سرگرم ہوں، دوسری طرف ’’انتہاء پسندی‘‘ کی حامل جماعتوں کی ذارئع آمدنی پر قدغن عائد کی جائے ، اوران کے مالیاتی نظام یا نیٹ ورک کو جامد کردیاجائے،نیز خودامریکی معاشرہ میں اپنے مسلم سیکولر عسکری عناصر کو پروان چڑھایا جائے، جوآگے جاکر ضرورت کے کسی بھی موقع پرامریکی مفادات ومصالح کی خاطر کام آسکیں۔۔۔۔۔
جبکہ حالیہ رپورٹ میں اس تفریق کے بجائے عمومی تناظر میں ساری مسلم دنیا میں "اعتدال پسند مسلمانوں "کے نیٹ ورکز تشکیل دینے کی روِش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اب دشمن کاہدف بطور خاص یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ پر مبنی ان کی شناخت اورنسبت کو ٹھیس پہنچاکر اس سے ان کارشتہ کاٹ دیاجائے،واضح ہوتاہے کہ اس سلسلہ میں ان کو اپنی ’’ اعتدال پسند‘‘ اور’’انتہاء پسند‘‘ کی خانہ بندی پرمبنی پالیسی کی ناکامی کا احساس ہوچکا ہے، اس لئے کہ یہ سب بالآخر اسلامی شریعت پر مشترکہ طورپرایمان رکھتے ہیں،اورایک مسلمان کی زندگی میں اس کی اہمیت کویکساں طورپر تسلیم کرتے ہیں۔لہذا اب مسلمانوں کے بجائے خوداسلام کے بنیادی نظریات اورعقائد میں دسیسہ کاری پر مبنی پالیسی کی ضرورت محسوس کی گئی۔
مذکورہ رپورٹ کامطالعہ کرنے والا شخص بخوبی سمجھ سکتاہے کہ اس میں ’’اعتدال پسندوں‘‘ اور’’انتہاپسندوں‘‘ کو ایک حد تک ،دانستہ طورپر،باہم خلط ملط کرکے،سراسر’’جدت پسند‘‘ ، ’’ لبرل‘‘،اور’’اعتدال پسند‘‘مسلمانوں (Modren and Liberal Muslims) کی تیاری کامنصوبہ دیاگیا ہے۔۔۔۔۔
اور’’امریکی اعتدال پسندی‘‘ کی مختلف تعریفات اورمتعین شرائط کے ذریعے یہ بات طے کی گئی ہے کہ کون امریکہ کے’’موقف اعتدال‘‘ پرپورا اترتاہے ،نیز جواس موقف پرپورانہ اترے تووہ از خو دانتہا پسندی کے کٹہرے میں کھڑا ہوجائے گا۔۔۔!
’’اعتدال پسندی‘‘ کے اہم نکات
مطلوبہ’’اعتدال پسنداسلام‘‘ کی یہ لہر درج ذیل نکات پر مشتمل ہوگی:
۱۔شریعتِ اسلامیہ کو کسی صورت نافذ نہ ہونے دیاجائے۔
۲۔عورت اپنا’’فرینڈ‘‘(نہ کہ شوہر) اختیار کرنے میں آزاد ہوگی۔
۳۔مسلم اکثریتی ممالک میں دیگر مذہبی اقلیتوں کواونچے حکومتی عہدوں پرآنے کاحق حاصل ہوگا۔
۴۔ لبرل تحریکات اورلہروں کی حمایت ہوگی۔
۵۔ صرف دو دینی یاا سلامی نقطۂ نظر قابل قبول ہوں گے:
الف۔ ایک روایتی یا رسمی دینداری جس کامطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ عام بازاری آدمی کی طرح روٹین کے مطابق نماز وغیرہ پڑھتا رہے،اوراس سے آگے نہ بڑھے۔
ب۔ صوفیانہ دینداری پر مبنی وہ نقطۂ نظر بھی قابل قبول ہے،جو صرف قبروں کی نماز، دعاؤں اورپھول چڑھاکر اپنی دینداری کا قائل ہے ۔لہذا جب تک یہ دونوں نقطۂ نظر اپنی ان رسمی کا ر روائیوں میں مگن ہیں،اوراپنے اسلاف کی حقیقی روایات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں،تب تک ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
سیکولر رفاہی اداروں کاقیام
اس رپورٹ میں شرق اوسط کے سابق وائسرائے’’ ڈبتیس روس‘‘ کی ایک بات کاحوالہ بھی دیاگیا ہے جس میں اس نے ایک ایسی ’ ’ سیکولر لابی‘‘ قائم کرنے پرزوردیا،جوسیکولرزم کی اقدار کاپرچارکرے،اوراس مقصدکیلئے ایسے رفاہی ادارے تشکیل دے،جودیگراسلامی تنظیموں کی پیش کردہ رضاکارانہ فلاحی اوررفاہی خدمات کے مقابلے میں اسی طرح کی خدمات پیش کرے جیسی خدمات اسلامی تنظیمیں پیش کررہی ہیں،چاہے وہ خدمات طبی امدادپرمشتمل قافلوں کی صورت میں ہوں،یا یتیموں اوربے آسراخاندانوں کی کفالت کی صورت میں۔۔۔!
اعتدال پسند مسلمان کے امریکی معیارات واوصاف
عجیب بات یہ ہے کہ اس تحقیقی رپورٹ میں گیارہ سوالات قائم کرکے یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی نقطۂ نظر سے’’اعتدال پسند‘‘ شخص کون ہوسکتاہے۔۔۔۔ یہ ایک آزمائشی پرچہ ہے،جو ’’امریکی اعتدال پسند‘‘ شخص کے تعین کے معیارات وضع کرتاہے۔۔۔۔۔۔:
مختصرطورپر یہ معیارات حسب ذیل ہیں،جن کو مان کرایک آدمی امریکہ کی نظر میں ’’اعتدال پسند‘‘ بن سکتاہے:
۱۔مطلوبہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جو مغربی فکرونظر سے ہم آہنگ ہو۔
۲۔ایک اسلامی ریاست کی اصولی یا نظریاتی حیثیت کاانکار کرے۔
۳۔’’اعتدال پسند‘‘اور ’’انتہا پسند‘‘ مسلمان کے درمیان خطِ فاصل ’’نفاذِ شریعت‘‘ کے مطالبہ کوماننا یا نہ ماننا ہے۔
۴۔ اعتدال پسند شخص کہلانے کاحقدار وہی ہوگا جو ’’عورت‘‘ کی حقیقی حیثیت کو موجودہ تناظر میں متعین کرنے کاداعی وحامی ہو، اورعورت کے اس تصور کامخالف ہو،جو عہد رسالت ، عہدِ صحابہ اورابتدائی اسلامی نسلوں میں متعارف رہا ہے۔
۵۔’’اعتدال پسند‘‘ مسلمان بننے کیلئے اس سوال کا جواب د ینا بھی ضروری ہے کہ کیا آپ’’تشدد‘‘ کے حامی ہیں یا کبھی اپنی زندگی میں اس کی موافقت کی ہے۔۔۔؟
۶۔جمہوریت پراس کے وسیع ترمفہوم(یعنی مغربی انسان کے حقوق کی نگہداشت،جس میں ہم جنس پرستی اوراباحیت وغیرہ سب چیزوں کی حمایت داخل ہے) کوقبول کرتاہو۔
۷۔ ’’ کیا آپ کو اس جمہوریت پر تحفظات ہیں‘‘؟(مثلاً یہ کہ فردکواپنا دین تبدیل کرنے کی آزادی وغیرہ۔۔۔)
۸۔کیا آپ کسی انسان کے اس حق کوقبول کرتے ہیں کہ وہ اپنا دین تبدیل کرسکتاہے۔۔؟
۹۔کیا آپ سمجھتے ہیں یا آپ کاعقیدہ ہے کہ ریاست کوحدودوتعزیرات کے شرعی احکام نافذ کرنے چاہئییں؟ یا کیا آپ صرف معاشرتی طور پراخلاق وغیرہ کی حدتک شریعت کے نفاذ کے قائل ہیں؟ اورکیاآپ اس بات کے حق میں ہیں کہ شریعت سیکولرزم کے خول میں بھی قابل قبول ہوسکتی ہے؟ ( یعنی گویا قانونِ شریعت کے بجائے دیگرقوانین ہی قابل قبول ہیں؟)
۱۰۔کیا آپ اس بات کی حمایت کریں گے کہ دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی کلیدی ریاستی عہدوں پرفائز کیا جاسکتاہے؟ کسی غیرمسلم کو اس بات کی پوری آزادی ہے کہ وہ کسی مسلم ریاست میں اپنی عبادت گاہوں کو تعمیر کرسکے؟
ان جیسے سوالات اورتنقیحات کے "درست جوابات "دینے پر ہی ’’اعتدال پسند‘‘ یا ’’ انتہا پسند‘‘ مسلمانوں کا تعین کیا جاسکے گا۔۔
امریکہ کی نظرمیں’’اعتدال پسند کون‘‘ ؟
ٓٓآگے جاکر اس تقریر میں مسلم دنیا میں پائے جانے والے تین قسم کے’’اعتدال پسند مسلمانوں‘‘ کی نشاندہی کی گئی ہے ،جو یہ ہیں:
۱۔ہروہ لبرل سیکولر شخص،جو ’’دین‘‘کے کسی بھی کردار پرایمان رکھنے کا روادارنہ ہو۔
۲۔’’ملا دشمن‘‘ عناصر۔۔۔۔جن کو اس رپورٹ میں ’’اتاترکی‘‘ یعنی مصطفی کمال اتاترک کی ترک سیکولر لابی کی طرف منسوب کیاگیا ہے،نیز بعض تیونسی سیکولر طبقات سے بھی ان کوتشبیہ دی گئی ہے۔
۳۔وہ دین دوست یا اسلام پسند عناصر،جو ’’مغربی جمہوریت‘‘ اور’’اسلام‘‘ کو باہم متصادم نہیں سمجھتے۔اورپھرواضح اوردوٹوک الفاظ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اس’’ اعتدال پسند‘‘ اسلامی لہر کا نمائندہ ہروہ شخص ہے جوقبروں کی زیارت اورچڑھاوے کرتاہو۔۔۔جس سے ان کی مرادوہ نام نہاد صوفی طبقہ ہے جوبغیر کسی سوچ سمجھ اورعاقبت اندیشی کے محض چند رسمی رکھ رکھاؤ کے ذریعے دین کی پیروی کوکافی سمجھتاہے۔
مغربی دنیا کی’’ عربی اسلام‘‘ سے خوف ودہشت
’’رانڈ کارپوریشن‘‘ کی اس رپورٹ میں’’عربی اسلام‘‘ سے مغربی خوف ودہشت کاکھل کر اظہار ہوتاہے۔۔۔۔
اس رپورٹ کے صفحات کاایک الگ معتد بہ حصہ ایسے موادپر مشتمل ہے،جن میں اس نکتہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اعتدال پسندی‘‘ کا بیج بونے کیلئے مسلم دنیا کے حاشیہ نشین اوردوردراز کے اطراف میں واقع اسلامی ممالک کی زمین کاانتخاب کرکے صرف انہیں ہی اس جدوجہد کامحور بنایا جائے۔۔۔اور’’مرکز‘‘۔۔۔( مسلم عرب خُطّہ) کو اس حوالے سے نظرانداز کردیاجائے۔۔بالفاظ دیگر عالم عربی یا شرق اوسط کے بجائے ایشیا اوریورپ میں یاان کے آس پاس واقع اسلامی ممالک میں یہ پالیسی اپنانی چاہیئے۔
اس حکمت عملی سے ان کاہدف یہ ہے کہ چونکہ مسلم دنیا کے’’مرکز‘‘( عالم عربی)میں پہلے سے ہی’’انتہا پسندی‘‘ کی ایک لہر چل پڑی ہے جس کی بنیادپر گویا عرب ممالک امریکہ کی نظر میں انتہا پسند قرار دئیے جاچکے ہیں۔ لہذا ’’اعتدال پسندی‘‘ پرمبنی جدید اسلامی افکار پرانہی ایشیائی اوریورپی اسلامی خطوں میں ہی عمل درآمد ہوناچاہئیے ،اورانہیں کے واسطے سے باقی مسلم دنیا میں مجموعی طورپران جدت پسندانہ افکار کی اثرپزیری کی راہ ہموار کرنی چاہیئے،عرب دنیا کے مقابلے میں دیگر مسلم ممالک ان افکار کیلئے زیادہ سازگار ثابت ہوں گے۔۔
مسلمانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کی تکنیک میں تبدیلی
یہاں آکر رپورٹ میں ایک اورشوشہ بھی چھوڑاگیا ہے،جس کی روسے مسلمانوں میں تبدیلی لانے کی غرض سے ان سے حوار یا ڈائیلاگ کی پالیسی میں بھی نئی تکنیک سے کام لیا جائے گا،جس کاحاصل دوچیزیں ہیں:
۱۔مسلمانوں کی طرف سے ڈائیلاگ کرنے والے چہروں میں تبدیلی لائے جائی گی،اورانہیں اپنی ذمہ داریوں کی بجاآوری سے روکنے کیلئے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔
۲۔یا پھر کسی ’’مناسب موقع‘‘ کا انتظارکیاجائے گا،جبکہ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس ’’مناسب موقع‘‘ سے ان کی کیامرادہے۔۔؟
اس سلسلے میں بندہ(راقم عرب رپورٹر) کی ’’الاسلام والاسلام العربی‘‘ نامی کتاب مزید تفصیل کیلئے بہت موزوں رہے گی۔۔۔۔
اطراف کے ممالک کو’’مرکز‘‘سے دوررکھنے کی پالیسی
اس رپورٹ کی دس فصلوں میں سے چھٹی اورساتویں فصل میں اطراف(ایشیااوریورپ) کے خطوں میں وا قع اسلامی ممالک کو ان منصوبوں کیلئے تجربہ گاہ کے طورپراستعمال کرنے کوخصوصی طورپرموضوع بنایا گیا ہے،اوران اداروں کے نام پیش کئے گئے ہیں،جن سے اس سلسلہ میں باہمی اشتراک عمل اورتعاون ِ مالی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے،بطورِ مثال کچھ ایسے اسلا م مخالف سرگرمیوں کے حامل نام بھی لیے گئے ہیں،جوعملی دنیامیں اسلام کے کردارکومجروح کرنے کیلئے مصروفِ کار ہیں۔
جیسے ایک سعودی ویب سائٹ کی اس بات پر بڑی پذیرائی کی گئی ہے،کہ کلمہ طیبہ(لاالٰہ الاّ اللہ محمّدرسول اللہ) کی گواہی کاکوئی ثبوت نہیں،اس جیسی افکار وآراء پر مبنی ویب سائٹس کوسپورٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اورمخصوص اغراض کیلئے سرگرم اداروں کی ہمہ جہتی تعاون کواولین مقصدقراردیاگیا ہے۔
بہرحال رپورٹ توبہت طویل ہے،تاہم سطوربالا میں اس کاعمومی اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے،اوراسی تناظر میں اس تحریر کوسمجھناچاہیے۔
تین اہم نکات
مختصرلفظوں میں اس رپورٹ کے درج ذیل نکات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں:
۱۔مساجد کے کردار کے رخ کو اپنی طرف پھیرنے کی کوشش کرنا۔
۲۔غیر جمہوری راستے سے مسلط ہوکرآنے والی حکومتوں کی حوصلہ افزائی ،اوران کوشَہ دینا۔
۳۔ ایسے امریکی اداروں کاقیام، جو امریکہ کے تعاون سے ایسی شخصیا ت اورنیٹ ورکزکی پشت پناہی کریں،جو’’سیکولرزم‘‘اورنام نہاد’’صوفی ازم‘‘ پرمبنی افکار وآراء کی حامل ہوں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے نکات ہیں،جن سے ایسے افراد یا اداروں کی تشکیل کیلئے راہ ہموار ہوسکتی ہو،جو ’’اعتدال پسنداسلام‘‘ کے امریکی معنی ومفہوم پریقین رکھتے اوراس کیلئے سرگرم بھی رہتے ہوں۔
عالمِ اسلام پراس رپورٹ کے اثرات
یہ رپورٹ’’اس فورم‘‘ کی طرف سے ۲۰۰۷؁ء میں شائع ہوئی ہے،اورمسلم دنیا میں امریکی سیاسی پالیسیوں میں نمایاں طورپر اس رپورٹ کے اثرات ظاہر بھی ہوئے،اس کا سب سے نمایاں مظاہرہ غالباً اس وقت ہوا جب’’ الربیع العربی‘‘(عرب بہار) کانام پانے والے عرب قوموں کے مشترکہ شیرازہ کو بکھیرکرناکامی سے دوچار کیاگیا۔۔۔۔اس لئے کہ انہی عرب قوتوں کے افق سے شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کی’’روشن کرن‘‘ہویدا ہوسکتی تھی،جوآگے جاکر مغربی دنیا اورخصوصاً’’امریکی شہنشاہیت‘‘ کیلئے سب سے بڑاخطرہ ثابت ہوتی۔
امت مسلمہ کے خلاف’’سازشیں‘‘ حقیقت ہیں
محترم قارئین! علم ودانش ،دینی علوم اورسیاسی بصیرت سے منسوب بہت سے حضرات کادعویٰ ہے کہ اس امت کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوتی،ہم خود ہی اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرتے ہیں،اوراپنی شاہراہ ترقی میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں،’’نظریہ سازش‘‘ سے گویا ان کے سرمیں دردہونے لگتاہے۔۔۔لیکن رپورٹ کے اس مختصرسے تجزیہ میں آپ نے ملاحظہ کرلیا ہوگا کہ دشمن کی یہ عیارانہ ریشہ دوانیاں اس امت کے خلاف کی جانے والی کن خطرناک ’’عبقری سازشوں‘‘ کا پتہ دیتی ہیں؟
نوٹ:’’رانڈ کارپوریشن کی ویبسائٹ کا لنک یہاں دیاجاتاہے،اصل انگریزی رپورٹ کووہاں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔۔۔
http:www.rand.org/content/dam/rand/pubs/monographs/2007/RAND MG 574.Pdf

٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More