>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ھے(دوسری قسط)

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وتحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا محمد حنیف خالد صاحب

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ہے
(دوسری قسط)

روس سے آزاد ہونے والی بعض ریاستوں میں حکمت سے کام نہیں لیاگیا
یہ باتیں میں اس واسطے کررہا ہوں کہ میں اگلی بات کہنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں وسطِ ایشیا کے جو مسلم ممالک آزاد ہوئے ، یعنی تاجکستان ، ازبکستان وغیرہ ، ان ممالک میں کیاہوا؟
تاجکستان میں
تاجکستان سے روسی فوجیں تو ہٹ گئیں ، مگر مقامی حکمران وہی باقی رہے جن کو روس نے مقرر کیا ہوا تھا ، وہ حکمران روسی ذہنیت اور روسی نظریات سے متأثر تھے ، انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی ، انہیں خیر خواہی ، اور حکمت کے ساتھ دین کی طرف لانے کی ضرورت تھی مگر ان کے خلاف عوام کی بعض جماعتوں کی طرف سے کسی حکمت، دانائی ، نیز قابلِ اعتماد صالح قیادت کے بغیر محض جذبات میں آکر اصلاحی اور تبلیغی کوششوں کے بجائے تشدد اور لڑائی کا راستہ اختیار کرلیاگیا،کمیونزم سے ان ممالک کو آزادی تو حاصل ہوگئی تھی ، سویت یونین ٹوٹ گئی تھی ، لیکن روس کے اثرات بڑی حدتک غالب تھے ، روسی کمیونسٹ بھی کافی تعداد میں وہاں موجود تھے ، اور بڑے عہدوں پر تھے ، اور سکہ بھی روس کا وہی رُوبَل چل رہا تھا، وہاں تبلیغ کی ضرورت تھی ، تعلیم کی ضرورت تھی ، اصلاحی کوششوں کی ضرورت تھی ، مگر وہاں جہاد کا اعلان کردیاگیا ، اور پرتشدد کارروائی شروع کردی گئی ، یہ جذبات کا فیصلہ تھا اور حکمت کے خلاف تھا ، اس وقت ہم بھی یہاں سوچا کرتے تھے کہ انہوں نے دانشمندی کا کام نہیں کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تاجکستان میں حکمرانوں نے شروع شروع میں کچھ مصالحت کا انداز اختیار کیا، اس کے بعد اس تحریک کو طاقت سے کچل ڈالا، اور اتنا کچلا کہ آج وہاں کوئی بھی شخص کھلم کھلا آزادانہ طورپر دین کا درس نہیں دے سکتا ، قرآن کا سبق نہیں پڑھا سکتا ، کوئی مدرسہ نہیں کھول سکتا ، حالانکہ وہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے ۔
تاجکستان کی مادری زبان فارسی ہے لیکن روسی کمیونسٹوں نے دیگر استعماری ممالک کی طرح وہاں بھی یہ ظلم کیا کہ وہاں کا رسم الخط بدل ڈالا ، زبان تو فارسی ہی رہی مگر رسم الخط روسی رائج کرکے وہاں کے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے کاٹ دیا گیا ۔ تاکہ فارسی کی کتابیں جو مسلمانوں کی پہلے سے موجود ہیں ، ان کا مطالعہ نہ کرسکیں ،نہ نئی آنے والی نسلیں انہیں پڑھ سکیں ۔ چنانچہ اب موجودہ نسلیں اپنے شاندار ماضی اور اپنے اسلاف کی فارسی کتابیں نہیں پڑھ سکتیں۔
آزادی مل جانے کے بعد ان افسوس ناک حالات سے نمٹنے کے لئے وہاں اخلاص تو موجود تھا ، لیکن صرف جوش اور جذبات سے کام لیاگیا ، اصلاح کی پر امن کوشش اور حکمت سے کام نہیں لیاگیا ، اور سنت کے طریقوں کو اختیار نہیں کیاگیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تحریک سختی سے کچل دی گئی ، اب بھی اگرچہ وہاں ۔ الحمد للہ ۔ مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں ، ہمارے دارالعلوم کے فاضلین بھی وہاں موجود ہیں جو وہیں کے باشندے ہیں ، لیکن وہاں درس وتدریس کا کوئی بھی باقاعدہ سلسلہ قائم کرنا فی الحال ممنوع ہے ۔
ازبکستان میں
۱۹۹۲ ء میں ہمارا ازبکستان جانا ہوا تھا ، اُس سے کچھ ہی پہلے ازبکستان اور وسطِ ایشیا کے باقی ممالک کو تازہ تازہ آزادی ملی تھی ۔ مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی طرف سے ہمارا (علماء کا) کا ایک وفد وہاں گیا تھا ، ہم وہاں تقریباً پورے ملک میں پھرے ، شہروں میں گئے ، آزادی تھی ، تاشقند میں کچھ دینی ادارے تھے ، خاص طورسے یہاں کی مشہور شخصیت جناب مفتی محمد صادق صاحب کا مدرسہ دیکھ کر بہت مسرّت ہوئی ، ہمارے وفد کو دعوت دے کر انہوں نے خاص طورسے بلایا تھا ، برادر عزیز مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے یہاں عربی میں مختصر بیان کیا اور بتایا کہ اسلامی علوم کے معاملے میں توہم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگ "علمائے ماوراء النہر” کے مرہونِ منت ہیں کیونکہ ماوراء النہر کا علاقہ جسے آج وسطِ ایشیا کہاجاتا ہے اسلامی علوم کا عظیم الشان مرکز رہ چکا ہے ، اور ہم تک اسلامی علوم اس علاقے کی عبقری شخصیات مثلاً امام بخاری ، امام ترمذی ، فقیہ ابواللیث سمرقندی جیسی عظیم شخصیات ہی کے واسطے سے ملے ہیں ۔
سمر قند میں بھی ہمارے بیانات ہوئے ، خرتنگ اور بخارا میں بھی مجلسیں ہوئیں ، مسجدیں آزاد ہورہی تھیں اور مدرسے بھی کچھ کھل گئے تھے اور کچھ کھل رہے تھے ، علماء پر کوئی قدغن نہیں تھی ، کافی خوشی ہوئی ، ہم وہاں بہت بڑی تعداد میں دینی کتابیں لے کر گئے تھے ، پھر وہاں کے کچھ طلباء بھی ہمارے مدرسوں میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ، جیسے کہ تاجکستان سے آئے تھے ، بعد میں وہ یہاں سے فارغ ہوکر واپس گئے ۔
وہاں ہم نے امت کے جلیل القدر فقہاء مثلاً فقہ حنفی کے فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ ، علمائے متکلمین اور صوفیائے کرام کے مزارات پر حاضری کی بھی سعادت حاصل کی ، "خرتنگ” نامی قصبے میں (جو سمرقند کے قریب ہے) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی حاضری ہوئی ، بخاریٰ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اُس قلعہ نما عظیم مدرسے کی بھی زیارت نصیب ہوئی جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی ، اور پھر اُسی تاریخی مدرسے میں ان کے فقید المثال درس بخاری کا سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا ۔
سمر قند کے علاقے میں پندرہویں صدی کی عظیم الشان اور بے نظیر رصد گاہ بھی دیکھی جو مشہور مسلم سائنس دان اور ماہر فلکیات "اُلغ بیگ” نے ۱۴۲۰ء تا ۱۴۲۸ء میں تعمیر کی تھی ۔ اُلغ بیگ حافظ قرآن اور بڑا عالم دین تھا ، امیر تیمور کا پوتا تھا اور ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کا دادا۔ یہ اپنی نوعیت کی تین منزلہ منفرد رصد گاہ تین سو سال تک ماہرین فلکیات کی رہنمائی کرتی رہی ، اس کی بلندی ایک سو بیس (۱۲۰) فٹ اور قطر (ڈایا) دو سو پچاس (۲۵۰) فٹ سے زیادہ تھا ۔ یہ رصد گاہ ایک پہاڑی حصے پر بنائی گئی تھی ، اور دائروی شکل کی تھی ، اس کی تین سطحیں تھیں ۔ اصل عمارت تین منزلوں کے برابر بلند طویل سرنگ پر مشتمل تھی ، جو داخلی راستے سے شروع ہوکر گہرائی میں سطح زمین سے نیچے جاکر گولائی میں آسمان کی جانب بلند تھی ۔ یہ اپنی قسم کا دنیا کا سب سے بڑا فلکیاتی آلہ تھا ، رصد گاہ کے آثار روسی ماہرین آثار قدیمہ نے ۱۹۰۸ء میں دریافت کئے ۔
امیر تیمور (لنگ) کا جانشین اُس کا بیٹا شاہ رُخ تھا ، شاہ رُخ کی وفات کے بعد شاہ رخ کا بیٹا ہی اُلغ بیگ ہے جو تخت تیموری کا وارث ہوا۔ اس کی سلطنت بحیرہ روم سے منگولیا تک پھیلی ہوئی تھی ، لیکن اصل دلچسپی علم وفن ہی میں تھی ، وہ روزانہ دوپارے حفاظ کے سامنے پڑھ کر سناتاتھا ، جس میں کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی ۔ اُسے عربی زبان پر عبور تھا ، اور اس میں انتہائی عمدہ تصنیف کرتاتھا ، اسی طرح اُسے اسلامی فقہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُس نے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی ، اور ایک مدرسہ عظیم الشان بنایا تھا ، جس میں اسلامی وعربی علوم وفنون کے ساتھ فلکیات کی تعلیم وتربیت بہت خصوصیت کے ساتھ جاری تھی ۔ مدرسے کی تعمیر کا کام ۱۴۱۷ء تا ۱۴۲۰ء ہوتا رہا ، یہ ایک عظیم عمارت تھی ، جس میں چار بلند وبالا گنبد اور ہر کونے پر ایک مینار تھا ۔ ہر کمرہ دوطلبہ کی رہائش کے لئے دوحصوں میں منقسم تھا ، یہ عمارت اب تک موجود ہے ۔ اُس دور کے اکابر علمائے دین اور عظیم سائنس دان مدرسے میں بطور معلم تعینات تھے ۔ الکاشی اور دوسرے ریاضی دان اور ماہرینِ فلکیات جو مدرسے میں تعینات تھے ، رصد گاہ میں بھی کام کرتے تھے ۔ تدریس عربی زبان میں ہوتی تھی ، کیونکہ فلکیات پر واحد درسی کتاب طوسی کی "التذکرہ” پر نظام الدین نیشا پوری (متوفی ۱۳۱۱ء) کی شرح تھی ۔ یہ شرح بھی عربی زبان میں تھی ۔
لیکن جب مسلمانوں کا اقتدار روبہ زوال ہوا اور یہاں روسی اقتدار نے اس کی جگہ لے لی تو یہ عظیم رصد گاہ، یہ بابرکت خانقاہ اور اپنے وقت کا یہ بے نظیر جدید ترین مدرسہ آثار قدیمہ کا حصہ بنتے چلے گئے ۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ازبکستان پھر آزاد ہے ، مگر یہاں بھی کیا ہوا؟ فرعانہ کے علاقے میں "نمنکان” ایک جگہ ہے ، وہاں کچھ جوشیلے نوجوانوں نے "اسلامی حکومت” کا اعلان کردیا ، حالانکہ اُزبکستان میں مضبوط حکومت روس کے زیر اثر اب بھی قائم تھی ، اس کی فوج ہے ، پولیس ہے ، مگر ان جوشیلے نوجوانوں نے ازبکستان کی جمی ہوئی منظم حکومت کے مقابلے میں ، اصلاحی کوششوں اور تبلیغی جدوجہد کے بغیر اور تعلیم دین کو آگے بڑھائے بغیر اچانک اعلان کردیا کہ اس شہر یا اس علاقے میں ہم نے اسلامی حکومت قائم کرلی ہے ، ظاہر ہے یہ حکمت کے خلاف تھا ، اس علاقے کے طلبہ ہمارے ہاں زیر تعلیم تھے ، میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں نے یہ کام حکمت کے خلاف کیاہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں حکومت کی طرف سے سارے ملک میں سختی کے ساتھ اتنی پابندیاں عائد کردی گئیں کہ وہاں بھی درس وتدریس کا سلسلہ ممنوع ہوگیا، دین کا جو کچھ کام ہورہا تھا اس پر پابندی لگ گئی۔ جو مدارس کھلے تھے وہ بھی بند ہوگئے ، آج علماء ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ڈرتے ہیں ، اور باہر کے علماء کی وہاں رسائی آسان نہیں رہی۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِاّ ُ ولِی اْلاَ بْصَارِ(آل عمران :۱۳)
” ان واقعات میں بڑی عبرتیں ہیں”

یہ کیوں ہوا ؟
حکمت کی دینی اہمیت
شریعت کی ایک اہم بنیاد حکمت ہے ، قرآن کریم میں اس کی بار بار تاکید آئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چار مقاصد آپ نے قرآن کریم میں یہ پڑھے ہیں :

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔(آل عمران : ۱۶۴)
"یعنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر (بڑا) احسان کیا ، جب کہ ان میں انہی میں سے ایک ایسے (عظیم الشان ) پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں (اور احکام) پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور (ظاہری اور باطنی گندگیوں سے) ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتابِ (الہی) اور سمجھ کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے) پہلے صریح غلطی (یعنی شرک وکفر)میں(مبتلا) تھے ۔”

اس آیت نے بتایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بنیادی مقاصد میں سے چوتھا مقصد حکمت(سمجھ کی باتوں) کی تعلیم تھی ، پوری سیرتِ طیبہ حکمت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے ، جہاد میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ درجے کی حکمت سے کام لیا ، ایک وقت میں دو دشمنوں سے جنگ نہیں کی ، ایک وقت میں دو محاذوں پر جنگ نہیں چھیڑی ، جب مشرکین مکہ سے لڑائی ہورہی تھی تو یہودیوں سے جنگ نہیں کی ، یہودیوں سے ہورہی تھی تو مشرکین مکہ کے خلاف جہاد نہیں کیا، اور جب عیسائیوں کے خلاف جہاد ہورہاتھا تو مشرکین ویہود میں سے کسی کے ساتھ محاذ نہیں کھولا ، یہ ایک خاص حکمت تھی ، آج کل لوگوں نے جذباتیت کا نام ، نعروں کے پیچھے بھاگنے کا نام اسلام کی خدمت رکھ لیا ہے ، حالانکہ حکمت دین کا بہت بڑا حصہ ہے ، اس کو چھوڑنا قرآن وسنت کی خلاف ورزی ہے ۔
قرآن کریم نے فرمایا :

یُؤً تیِْ الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا
( البقرۃ ، آیت نمبر : ۲۶۹)
ـ”یعنی (اور اللہ تعالیٰ) دین کا فہم (حکمت) جس کو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو دین کا فہم (حکمت) مل جاوے اس کو بڑی خیر کی چیز مل گئی (کیونکہ دنیا کی کوئی نعمت اس کے برابر نافع نہیں ہے)”

اور قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :

اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ
( النحل : ۱۲۵)

یعنی آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین اسلام) کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے (حکمت سے وہ طریقۂ دعوت مراد ہے جس میں مخاطب کے احوال کی رعایت سے ایسی تدبیر اختیار کی گئی ہو جو دل پر اثرا نداز ہوسکے ، اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ عنوان بھی نرم ہو ، دل خراش توہین آمیز نہ ہو) اور اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے (یعنی اگر بحث ومباحثے کی نوبت آجائے تو وہ بھی شدت اور سختی سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بے انصافی سے خالی ہونا چاہئے ، بس اتنا کام آپ کا ہے ، پھر اس تحقیق میں نہ پڑیئے کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا ، یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے )”
دیکھیں : افغانستان میں تاجکستان اور ازبکستان جیسی صورتِ حال نہیں تھی ، افغانستان پر تو روسی فوجوں نے حملہ کردیا تھا ، اور یہاں کے عوام اپنی جان ، مال اور دین کی حفاظت کے لئے مجبور ہوکر دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ، ان کا جہاد شریعت کے مطابق تھا ۔ الحمدللہ ، ہم نے بھی اس میں دامے ، درمے ، سخنے کچھ حصہ لیا ، اللہ نے مدد کی اور کامیابی حاصل ہوگئی ، لیکن تاجکستان اور اُزبکستان کی آزادی کے بعد وہاں روس کی فوجیں حملہ آور نہیں ہوئی تھیں ، روس کا اقتدار ختم ہوچکا تھا ، وہاں کے مقامی حکمران مسلمان تھے، لیکن ان کے اوپر روس کے ۷۲؍ سالہ اثرات چلے آرہے تھے ، ضرورت اس بات کی تھی کہ وہاں قرآن کریم کی اس ہدایت پر عمل کیا جاتا کہ :

اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ( النحل : ۱۲۵)
"یعنی آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دینِ اسلام)کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے اور (اگربحث مباحثے کی نوبت آجائے تو)اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے۔”

حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ تبلیغ کا کام کیاجاتا ، نرمی کے ساتھ اصلاحی کوششیں کی جاتیں ، تعلیم دین کے کام کو آگے بڑھایاجاتا ، اس کے بجائے وہاں متوازی حکومت کا اعلان کردیاگیا ،حالانکہ شریعت نے کفار کے مقابلہ میں بھی ترتیب یہ بتلائی ہے کہ سب سے پہلے ان کو دعوتِ اسلام دو ، اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے کہو کہ جزیہ دیا کرو، اگر وہ اسے مان لیں ، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ پر امن رہیں گے ، اور ہمارے ملکی قوانین کی پابندی کریں گے ، توان کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی ، اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر جہاد کا حکم ہے ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسلام کا لشکر لے کر کسریٰ کے مقابلے پر پہنچے تو وہاں پیغام یہ دیا کہ ہم تمہیں دعوتِ اسلام دیتے ہیں ، اگر تم مشرف بہ اسلام ہوگئے تو تم ہمارے بھائی ہوجاؤ گے ، اور تمہارے وہی حقوق ہوجائیں گے جو ہمارے ہیں ، اگر دعوتِ اسلام قبول نہیں کرتے پھر جزیہ دو ، اور اگر تم جزیہ بھی قبول نہیں کرتے تو یاد رکھو ! میرے ساتھ ایک ایسی قوم ہے جسے اللہ کے راستے میں موت سے ایسی ہی محبت ہے جیسی تم کو شراب سے محبت ہے ۔ تو کفار کو بھی جنگ سے پہلے دعوتِ اسلام دی گئی ، اور دعوتِ اسلام کے لئے قرآن نے قاعدہ یہ بتلایا کہ :

"اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ "(النحل :۱۲۵)
"یعنی آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دینِ اسلام)کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے اور (اگربحث مباحثے کی نوبت آجائے تو)اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے۔”

تاجکستان اور ازبکستان کے حکمرانوں کا تو کافر ہونا بھی ثابت نہیں تھا ، بدعمل تھے ، فسق وفجور اور کافرانہ ماحول میں پروان چڑھے تھے ، انہیں اسلامی احکام سے مانوس کرنا تھا ، انہیں یہ باور کرانا تھا کہ ہم تمہارے لئے خطرہ نہیں ، بلکہ تمہارے بھائی ہیں ، ہم تمہارے لئے طاقت کا ذریعہ بنیں گے ، اللہ کے دین کو پھیلاؤ ، اسلامی عدل وانصاف قائم کر و، عوام کے لئے سہولتیں پیدا کرو، مسجدیں آباد کرو ، مدرسے کھولو، دینِ اسلام کی تعلیمات کا انتظام کرو، معاشی خود کفالت حاصل کرو، سائنس اور ٹیکنالوجی میں محنت کرو، ملک کو ترقی دو ، ان سب کاموں میں ہم تمہارے مددگار ہوں گے ۔ مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے جوشیلے نوجوانوں نے اچانک ان کے مقابلے میں اپنی متوازی حکومت کا اعلان کردیا جو کہ شرعی ترتیب اور سنت کے موافق نہیں تھا ، افغانستان میں تو جہاد ٹھیک تھا ،کیونکہ وہاں کا فر دشمن حملہ آور ہوگیاتھا ، اور وہاں دفاع کرنا ضروری تھا ، دشمن افغانستان کے علاوہ بلوچستان پر بھی قبضہ کرنا چاہتاتھا تاکہ سمند ر کا ساحل اسے مل جائے ، لہٰذا وہ جہاد تو صحیح وقت پر شروع ہوا، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافر دشمن کو شکست ہوئی ، لیکن ازبکستان اور تاجکستان میں یہ صورتِ حال نہیں تھی ، وہاں کے حکمران خود کو مسلمان ہی کہتے اور سمجھتے تھے ، وہاں محاذ آرائی سے بچتے ہوئے دعوتِ اسلام اور تبلیغ اسلام اور تعلیمِ اسلام کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی ، افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ، اور اس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے ان دونوں ملکوں (تاجکستان اور ازبکستان) میں اتنی سخت پابندیاں لگادی گئیں کہ آج وہاں لوگ ڈاڑھیاں رکھتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ، اور مدرسہ قائم کرنا تو تقریباً ممنوع ہے ۔
کرغیزستان کے مسلمانوں نے حکمت سے کام لیا
ان سب باتوں کے بعد اب میں پھر کرغیزستان کی طرف آرہا ہوں ، جب ہم کرغیزستان پہنچے تو وہاں کے حالات تاجکستان اور ازبکستان دونوں سے بالکل مختلف تھے ، ہم نے دیکھا کہ وہاں حکومت عوام کے ساتھ ، علماء کے ساتھ ، مدارس کے ساتھ ، تبلیغی جماعت کے ساتھ مانوس ہے ، اور ان کے آپس میں رابطے ہیں ، چنانچہ ہمارے استقبال کے لئے صدرِ جمہوریہ کی گاڑی آئی ہوئی تھی ، جہاز سے اتر کر سیٹرھی کے پاس ، وی ، آئی ، پی ، مہمان کے طورپر ہمارا استقبال کیاگیا ، وہاں کے مفتی اعظم صاحب کے نمائندے اور اعلیٰ حکام ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے ،اور صدرِ جمہوریہ کے بھائی نے ہمارے میزبانوں کو اپنی مرسڈیز کار دے رکھی تھی کہ جب تک یہ مہمان یہاں رہیں گے اسی گاڑی میں سفر کریں گے ، ان سرکاری حکام نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ بلایا تھا علماء نے ، مگر ہمارے لئے ہوٹل بک کرائے صدرِ جمہوریہ کے قریبی ایک صاحب نے ، اور سارا خرچہ انہوں نے اپنی جیب سے برداشت کیا ، وہ ہماری دینی تقریریں سننے کے لئے ، دینی مشوروں اور دینی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہماری مجلسوں میں آتے تھے ، وہاں کی وزارتِ مذہبی امور کے ذمہ داران بھی آکر ہم سے دینی امور میں مشورے کرتے تھے ، اللہ کے فضل سے وہاں مسجدیں پھر بن رہی ہیں ، دینی مدارس لڑکوں کے لئے الگ اور لڑکیوں کے لئے الگ قائم ہورہے ہیں ۔ تبلیغ کا کام اچھے بڑے پیمانے پر جاری ہے ، امن وامان قائم ہے ، اور ملک پس ماندگی سے نکل کر ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔
جاری ہے …..

٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More