>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ھے

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وتحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا محمد حنیف خالد صاحب

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ہے

۳۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ (۱۱؍ جون ۲۰۰۷ء)بروز پیر بعد نماز مغرب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے وسط ایشیا کے مسلم ملک کرغیزستان سے واپسی پر ایک بصیرت افروز خطاب میں طلبہ کو بڑی اہم معلومات اور ہدایات سے نوازا ، اور ضمناً کرغیزستان کے علاوہ بھی کئی ملکوں کے سبق آموز حالات بیان فرمائے ۔ اس خطاب کو ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے ضبط تحریر میں لاکر حضرت کی خدمت میں پیش کیاگیا تو آپ نے مزید بیش بہا اضافے فرمائے ۔ اب آپ کی اجازت سے اسے شائع کیاجارہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ أجمعین ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین ۔ اما بعد !

عزیز طلبہ !
خطاب میں تاخیر کی وجہ
میرا آپ سے خطاب ٹلتا رہتا ہے لیکن نیت مسلسل یہی رہتی ہے کہ وقفہ کم سے کم ہو ، اور دو ہفتوں میں ایک مرتبہ خطاب ہوجایا کرے ، امید ہے کہ ان شاء اللہ نیت کا ثواب ملے گا ۔یہ بات بھی آپ حضرات کے لئے ایک لحاظ سے سبق آموز ہے ، ہم لوگوں کی مصروفیات کا حال یہ ہے کہ نت نئے مشاغل ، جن کا پہلے سے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ،اچانک پیش آجاتے ہیں ، پہلے زمانے میں مدرسہ چلانے والوں کے ذمہ صرف مدرسہ کا کام ہوتا تھا ، مدرسہ کا انتظام ، طلبہ کی تعلیم وتربیت ، ان کی رہائش اور ضرورت کا انتظام ، اساتذہ کا بندوبست ، تعلیم وتربیت کے نصاب ونظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش وغیرہ وغیرہ ۔ مگر اب مدرسوں کے ذمہ داروں پر اور بھی بہت سارے مسائل آگئے ہیں ، ان کا بڑا سبب موجودہ زمانے کے روز افزوں فتنے ہیں ۔
یہ فتنوں کا دور ہے
پوری دنیا میں نت نئے فتنے اٹھ رہے ہیں ، خاص طورپر عالم اسلام پر تو مسائل کی یلغار ہے ، اور یہ وہی فتنوں کا دور ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ، اور اس کی کیفیت یہ بیان فرمائی تھی کہ :

"یُرَقِّقُ بَعْضُھَا بَعْضًا”(ایک فتنہ دوسرے فتنے کو چھوٹا کردے گا)

یعنی ایک بڑا فتنہ آئے گا مگر بعد میں دوسرا فتنہ اس سے بھی بڑا آجائے گا جس کے مقابلے میں پہلا فتنہ چھوٹا معلوم ہوگا ، اس کے بعد تیسرا فتنہ اس سے بھی بڑا آجائے گا ، اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا اور بڑھتا چلا جائے گا ۔ آپ دیکھ رہے ہیں اس وقت عالم اسلام میں یہی ہورہا ہے ، ایک فتنہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا فتنہ اس سے بڑھ کر آجاتا ہے ، لوگ کہتے ہیں یہ بہت بڑا فتنہ ہے ، لیکن وہ ختم نہیں ہوتا کہ تیسرا فتنہ اس سے بھی بڑا آجاتا ہے، اس کے مقابلے میں پچھلا فتنہ چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے ، اور ظاہر ہے کہ علمائے دین کے لئے عالم اسلام کے ان پریشان کن حالات میں آنکھیں بند کرکے بیٹھنا ممکن نہیں۔
ان تمام مسائل میں اپنی مقدور بھر کوشش اور محنت بھی کرنی پڑتی ہے ، وقت بھی لگانا پڑتا ہے ، لوگوں سے ملاقاتیں بھی کرنی پڑتی ہیں ، سفر اور مشورے بھی کرنے پڑتے ہیں ، صورت حال یہ ہے کہ رات کو ایک بجے سے پہلے لیٹنے کا وقت ہی نہیں ملتا ، نت نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں ، جب رات کو لیٹتے ہیں تو اگلے دن ذمہ داریوں اور کاموں کا دماغ پر بوجھ ہوتا ہے ، دماغ پر فکر سوار ہونے کی وجہ سے نیند غائب ہوجاتی ہے ، نیند کی گولی کھانی پڑتی ہے ۔ ایک بجے لیٹتے ہیں ، آدھے پونے گھنٹے بعد دوبجے کے قریب نیند آتی ہے ، پھر دن میں کوشش کرتے ہیں کہ ظہر کے بعد کچھ نیند پوری ہوجائے ، مگر نیند کبھی پوری ہوتی ہے کبھی نہیں ۔
ادھر ہوتا یہ ہے کہ رات کو جن کاموں کی فکر سے نیند نہیں آرہی تھی ،صبح کو درس دینے کے بعد جب دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج تو ان کاموں کا نمبر ہی نہیں آئے گا ، پتہ چلا کہ فلاں جگہ فلاں شہر سے ایک وفد ایک فوری اہم مسئلہ لے کر آیا ہوا ہے ، آج کا سارا وقت اسی میں خرچ ہوگا، وہ مسئلہ ابھی نمٹا نہیں ہوتا کہ اتنے میں ٹیلیفون آجاتا ہے کہ اسلام آباد میں یا ملتان یا لاہور میں یا کراچی میں فلاں جگہ میٹنگ ہے ، اس میں شرکت کے لئے جانا ہے ، یعنی کرنا کچھ چاہتے ہیں ، ہوتا کچھ ہے ، اب ہماری زندگی مسائل کے اسی تلاطم میں گذر رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ آسان فرمادے ، اور فتنوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔آمین۔
اگر یہ سارے کام اخلاص اور تقوی کے ساتھ ہوں ، شریعت کے دائرے میں ہوں تو ۔ ان شاء اللہ ۔ یہ بھی ذر یعۂ نجات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔
یہ وقت آپ پر بھی آنے والا ہے
یاد رکھئے ! یہ وقت آپ پر بھی آنے والا ہے ، فی الحال تو آپ بڑے مزے میں ہیں ، کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ سبق پڑھ لیا ، رات کو مطالعہ کرلیا ، تکرار (درس کا اعادہ ) کرلیا ، کھانا کھالیا ، نماز پڑھ لی ، عصر کے بعد مغرب تک کا وقت کھیل اور تفریح میں گذار لیا اور رات کو گیارہ بجے مزے سے سوگئے اور دوپہر کو اطمینان سے قیلولہ کرلیا ۔ زمانۂ طالب علمی میں ہم بھی اسی طرح سوجایا کرتے تھے ، نیند اپنے اختیار کی تھی ، اور اب نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں ۔ یہ آپ کو اس واسطے بتا رہا ہوں کہ یہ دور آپ پربھی آنے والا ہے ، اور نہیں معلوم کہ آگے آنے والا دور مزید کتنے اور کیسے کیسے فتنے ساتھ لائے گا ، کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتنے ختم ہونے والے نہیں ہیں ، یہ بڑھتے جائیں گے ، اس لئے فکر کرنی چاہئے ۔ اور اللہ سے پناہ بھی مانگتے رہنا چاہئے ۔

"اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفِتَنِ ، مَاظَہَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ "
"اے اللہ ! ہم ظاہری فتنوں سے بھی آپ کی پناہ مانگتے ہیں ، باطنی فتنوں سے بھی "۔

یونان (GREECE )کے کچھ حالات
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ، ہمیں دوسرے ملکوں کا سفر بھی بکثرت پیش آتارہتا ہے ، دل چاہتا ہے آپ کو وہاں کی باتیں سنائیں، چنانچہ سناتا بھی رہتا ہوں ، اس سے طلبہ کو خوشی ہوتی ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند ماہ قبل (اگست وستمبر ۲۰۰۶ء میں) ہم یورپ کے سفر میں بیلجئیم ، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ یورپ کے قدیم تاریخی ملک یونان بھی گئے تھے ، یہ ان یونانیوں کا ملک ہے جن کی منطق اور فلسفہ ہم پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں ، افلاطون ، ارسطو ، سقراط اور دی مقراطیس وغیرہ کی سرزمین۔
"طبّ یونانی” جسے بعد میں مسلمانوں نے ترقی دی ۔ وہ بھی دراصل اسی یونان کا عطیّہ ہے ۔ عربی کا ایک مقولہ میں نے اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے سناتھا کہ :

"اُنْزِلَتِ الْحِکْمَۃُ عَلٰی اَدْمِغَۃِ الْیُوْنَان ِ، وَعَلی اَیْدِیْ الصِّیْنِ ، وَعَلی اَلْسِنَۃِ الْعَرَبِ”۔
"یعنی حکمت نازل ہوئی یونان کے دماغوں پر ، چین کے ہاتھوں پر ، اور عرب کی زبانوں پر۔”

یونان کا نام آج کل "گریس”(GREECE )ہے ۔
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ (Frankfurt)سے اپنے پاکستانی دوست جناب اشرف قریشی صاحب کے ساتھ بذریعہ طیارہ رات کو یونان کے دارالحکومت ایتھنز (Athans)پہنچے تو ائیر پورٹ پر وہاں کے میزبانوں میں ہمارے جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل مولانا عبدالرزاق صاحب پیش پیش تھے ، ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے ۔ تقریباً ۲۵؍۳۰ سال پہلے دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے ۔ اب کئی سال سے ایتھنز میں اچھا کاروبار کررہے ہیں اور ایک مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض بھی بلامعاوضہ انجام دیتے ہیں ۔ ان حضرات نے یہاں کی مساجد وغیرہ میں ہمارے پروگرام رکھے ہوئے تھے ، الحمدللہ بیانات میں مسلمان بڑی تعداد میں نہایت ذوق وشوق سے شریک ہوئے ، یہاں پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمان خاصی بڑی تعداد میں روز گار کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ تبلیغ کا کام بھی اچھے انداز میں ہورہا ہے ، مساجد ناکافی ہیں ، نمازیوں اور حاضرین کے لئے چھوٹی پڑجاتی ہیں ۔بہت سے مسلم نوجوان بازاروں میں رات کو آوارگی میں مبتلا بھی نظر آئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ۔
"ایتھنز” دنیا کے قدیم ترین تاریخی شہروں میں سے ایک ہے ، یہاں مشہور فاتح سکندر اعظم کے عظیم الشان محل کے عبرت ناک کھنڈر بھی دیکھے ، جو آنے والوں کو یہ حکیمانہ سبق یاد دلارہے ہیں کہ :

"کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ” (الرحمن : ۲۶)
اس زمین پر جوکوئی ہے فنا ہونے والاہے ۔

سکندر کے وزیر اعظم اور مشہور فلسفی "ارسطو”کا محل بھی برابر کی پہاڑی پر ویران دیکھا جو وحی الہی سے محروم فلسفوں کا نوحہ کرتا نظر آیا ۔ اب یہاں قدیم شہر کی عمارات کم ہی نظر آتی ہیں ، اب یہ جدید یورپ کا کم ترقی یافتہ شہر ہے ۔میزبانوں نے یہاں کا ایک اسٹیڈیم بھی دکھایا ، کہا جاتا ہے کہ اولمپک کھیلوں کا آغاز اسی تاریخی اسٹیڈیم سے ہوا تھا ۔
یونان جزیرہ نما ہے ، اس کے تین اطراف سمندر اور صرف شمال میں خشکی ہے جو اسے یورپ کے دوسرے ملکوں سے ملاتی ہے ، علاوہ ازیں آس پاس کے کئی چھوٹے بڑے جزیرے بھی اس ملک کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ جہاز رانی اور بحری راستوں سے بین الاقوامی تجارت کے اس ملک کو خوب مواقع ملے ہیں ، میزبانوں نے بتایا کہ جہاز سازی یہاں کی خاص مشہور صنعت ہے ، یہاں کے بنے ہوئے بحری جہاز معیاری سمجھے جاتے ہیں، نیز یہ بھی سننے میں آیا کہ بعض ایشیائی ممالک جن میں بھارت اور پاکستان کے لوگ بھی شامل ہیں ، اپنے ملکوں کے دھوکہ باز ٹریول ایجنٹوں کے فریب میں آکر یونان کے ساحل کو یورپ کے دوسرے ملکوں میں غیر قانونی طورپر داخل ہونے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اور عموماً گرفتار یا محصور ہوکر طرح طرح کے مصائب کا شکار ہوتے ہیں ، اور بہت سوں کو تو اس مہم کے دوران جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس سلسلے کے کئی نہایت سنگین اور انتہائی المناک واقعات سننے میں آئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

یونان پر مسلمانوں کا اقتدار
یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہ چکی ہے ۔ سلطنت عثمانیہ کے مشہور فرماں روا، سلطان بایزیدیَلْدَرِم نے یورپ کے آس پاس کے کئی ملکوں کی طرح یونان کو بھی ۸۰۰ھ (۱۳۹۷ء)میں فتح کرلیاتھا ، پھر یہاں کے عیسائی حاکم نے سلطان کی اطاعت قبول کرلی اور سلطنتِ عثمانیہ کا باج گذار بن گیا ، یعنی سلطنت عثمانیہ کو مقررہ خراج اداکرنے کا معاہدہ کرلیا تو سلطان نے یونان کو داخلی آزادی دے کر انتظامِ حکومت اُسی عیسائی حکمران کے پاس رہنے دیا ، تیس ہزار یونانی باشندوں کو ترکی کے علاقے میں لے جاکر آباد کردیا گیا ، اور ان کی جگہ ترکوں کی نو آبادیاں یونان میں قائم کردی گئیں ۔
یونان کے پڑوسی ملک تُرکی کا کچھ حال
بایزید سلطنت عثمانیہ کے اُس وقت کے دارالحکومت "ادِرنہ” واپس آکر قسطنطنیہ کے محاصرے کی تدابیر کرنے لگا ، لیکن جب محاصرہ کرلیا تو عین اُسی زمانے میں اُسے مشہور مسلمان فاتح”تیمور لنگ” سے جنگ کرنی پڑی اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اُٹھالینا پڑا ۔ تیمور لنگ کادارالحکومت ایشیا کا مشہور شہر سمرقند تھا ، وہ اپنی فتوحات کو وسعت پر وسعت دیتا ہوا انگورہ تک آپہنچا تھا ، یہ "انگورہ” وہی ہے جس کا نام بعد میں "انقرہ”ہوگیا، اور وہی آج کل ترکی کا دارالحکومت ہے ۔ یہاں دونوں کی فوجوں میں سخت جنگ ہوئی ، اور سلطان بایزید کو جس نے یورپ کے کئی ملکوں کو فتح کرکے صلیبی اتحاد کو پاش پاش کرڈالا تھا ، پورے یورپ پر اپنی طاقت کا سکہ جمادیا تھا اور اُس وقت تک کسی جنگ میں اُسے ناکامی نہیں ہوئی تھی ۔ انگورہ کی جنگ میں اُسے ایسی زبردست شکست اٹھانی پڑی کہ اُس کی تمام فتوحات پر پانی پھر گیا ، کچھ عرصے کے لئے سلطنتِ عثمانیہ کی عظمت خاک میں مل گئی ، اور یورپ کے جو ممالک اور ریاستیں سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ اقتدار تھیں یا باج گذار ہوچکی تھیں وہ بغاوت کے لئے پر تولنے لگیں ۔ خود بایزید کا خاتمہ بھی تیمور کی قید اور بے کسی کے عالم میں ہوا ۔ تیمور نے اُس کے بیٹے موسیٰ کو آزاد کرکے باپ کا جنازہ شاہانہ احترام کے ساتھ بروصہ ( بُرسا)روانہ کردیا، "ادِرنہ” سے پہلے سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت ” بُروسا”ہی تھا ۔دیگر سلاطین عثمانیہ کی طرح بایزید کو بھی وہیں سپردِ خاک کیا گیا (۱)۔ اس طرح یہ سبق آموز اور حسرت ناک حقیقت پھر سامنے آئی کہ مسلمانوں کو جب بھی شکست ہوئی ، اندرونی خلفشار، اپنوں کی بے وفائی اور خانہ جنگی سے ہوئی ہے ، اس درد ناک سانحے کے بعد قسطنطنیہ کی فتح ستاون (۵۷)سال تک کے لئے پھر مؤخر ہوگئی۔
سلطان بایزید مرحوم کی شکست اور وفات کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بُری طرح بکھر گیا تھا ، اس کے ایک لائق بیٹے "محمد اول”نے انتہائی ناساز گار حالات کا مقابلہ پامردی اور حکمت سے کیا، اُس نے اپنے حریفوں کو شکست دے کر بہ حیثیت سلطان صرف آٹھ سال حکومت کی ، لیکن اس مختصر مدت میں غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت دیا ، اور وہ سلطنتِ عثمانیہ کی دوبارہ شیرازہ بندی میں پوری طرح کامیاب ہوگیا ، اس دوران اس نے گرد وپیش کے تمام ممالک سے صلح کے معاہدے کئے ، اور شاہ قسطنطنیہ پر یہ احسان بھی کیا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے چند مقبوضات اُسے واپس کردیئے ۔ مرحوم نے اکتالیس سال کی عمر میں ۸۲۴ھ (۱۴۲۱ء ) میں وفات پائی ، اور اپنے والد کی طرح بروصہ ( بُرسا) میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ اس کی جگہ اُس کا اٹھارہ سالہ بیٹا "مراد ثانی” تخت نشین ہوا ۔
مراد ثانی کی کم سنی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے دوسرے کئی ممالک اور ریاستوں کی طرح شاہِ قسطنطنیہ نے بھی اُن احسانات کو فراموش کردیا جو اُس پر محمد اول نے کئے تھے ، اور اپنے قدیم بغض وعناد کی بناپر مصطفی نامی ایک باغی کو کھڑا کردیا جس سے مراد ثانی کو جنگیں کرنی پڑیں ۔ مراد نے اُسے شکست دے کر اس فتنے کا بھی خاتمہ کردیا ، اور شاہِ قسطنطنیہ کی اس غداری کے جواب میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کرکے اُس پر حملہ کردیا ، مگرشاہِ قسطنطنیہ کی سازش کے نتیجے میں پیچھے سے اپنوں ہی کی ایک اور بغاوت کی وجہ سے اُسے فوری طورپر محاصرہ اُٹھاکر اُس بغاوت کی سرکوبی کے لئے جاناپڑا ، اور قسطنطنیہ کی سازش کے نتیجے میں پیچھے سے اپنوں ہی کی ایک اور بغاوت کی وجہ سے اُسے فوری طورپر محاصرہ اُٹھاکر اُس بغاوت کی سرکوبی کے لئے جانا پڑا ، اور قسطنطنیہ کی فتح ایک مرتبہ پھر تاخیر کا شکار ہوگئی۔(۲)
سلطان محمد فاتح ۔۔۔۔ فاتح قسطنطنیہ ویونان
قسطنطنیہ جس کا موجودہ نام "استنبول”ہے ، اور ترکی کا مشہور ترین ، اور تاریخ عالم کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ عیسائی مذہب اور بازنطینی سلطنت کا اہم ترین مرکز تھا، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :

” اَوَّلُ جَیْش ٍمِنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَھُمْ "(۱)
"میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ )پر جہاد کرے گا اُس کی مغفرت ہوگی۔”

یہ سعادت حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لشکر روانہ کیاتھا ، جس کی قیادت اپنے بیٹے یزید کو سپر د فرمائی تھی ۔ اس مہم میں بہت سے صحابہ کرام شریک ہوئے اور قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا ، اسی محاصرے کے زمانے میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے اور وہیں وفات پائی ، آپ کو شہر کی فصیل کے پاس سپردِ خاک کیا گیا ، آپ کا مزار مبارک استنبول میں آج بھی مرجعِ خلائق ہے ۔ بندہ ناچیز کو بھی ترکی کے ہر سفر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزار پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ بہرحال اس حملے میں قسطنطنیہ فتح نہ ہوسکا ، اور لشکر واپس آگیا۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگی خبر اور بشارت بھی ارشاد فرمائی تھی کہ :

"لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطُنْطِیْنِیَّۃُ ، فَلَنِعْمَ الْاَمِیْرُ اَمِیْرُھَا ، وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْشُ "(۲)
"قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا اُس کا امیر اچھا امیر ہوگا ، اور وہ لشکر اچھا لشکر ہوگا۔”

فتحِ قسطنطنیہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سمیت بعد کے کئی مسلم حکمرانوں نے اس پر حملہ کیا، اور باربار اس کا محاصرہ کیا، یہ تین انتہائی مضبوط فصیلوں والا شہر مغرب میں بحر "مَرْ مَرَہ” کے کنارے پر، اور جنوب مشرق میں آبنائے باسفورَ س کے کنارے پرہے ۔ یہی آبنائے باسفورس بحر مَرْمَرَہْ کو مشرق میں بحر اسود سے ملاتی ہے ۔ اور اسی آبنائے باسفورس کے شمالی کنارے پر یورپ کا براعظم ختم ہوجاتا ہے ، اور اس کے جنوبی کنارے سے براعظم ایشیا شروع ہوتا ہے ۔ قسطنطنیہ کوفتح کرنے سے پہلے مسلمانوں نے اس کے گردوپیش کے تقریباً سارے یورپی ممالک فتح کرلئے تھے ، جن میں بُلغاریہ ، سرویا ، بوسنیا، البانیہ اور یونان بھی شامل ہیں ۔ اس طرح شاہِ قسطنطنیہ اپنے آخری دور میں ان ممالک کے بیچوں بیچ سلطنتِ عثمانیہ کے رحم وکرم پر زندگی گزاررہاتھا ، کبھی یہ بھی ہوا کہ جب مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کیا تو اس نے نہایت عاجزی سے صلح کی درخواست کی اور سلطنتِ عثمانیہ کا باج گزار بن کر رہنے کا معاہدہ کرلیا ، پھر جب موقع ملا اس عہد کو توڑ ڈالا ، اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ اس لئے سلطان بایزیدیَلْدَرِم اور اس کے پوتے سلطان مُراد نے اسے فیصلہ کن شکست دینے اور قسطنطنیہ سے اُس کا قبضہ مکمل طورپر چھڑا نے کے لئے اپنے اپنے دور میں بھرپور حملے کئے ، لیکن شاہِ قسطنطنیہ کی سازشوں ، اپنوں کی بے وفائی اور اندرونی بغاوتوں کے باعث محاصرہ اٹھانا پڑا اور وہ قسطنطنیہ کو فتح نہ کرسکے ۔
اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بایزید کے پڑ پوتے سلطان محمد فاتح کی قسمت میں لکھی تھی ۔ جبکہ اُس سے پہلے مجاہدین اسلام گیارہ مرتبہ(۱) قسطنطُنیہ کا محاصرہ کرچکے تھے ، لیکن کامیابی کا سہرا اس مردِ مومن کا منتظر تھا ، جلیل القدر صحابۂ کرام کے مقدس خون نے امید کے جس چمن کو سیرا ب کیاتھا ، اُس کے پھولوں کا تاج اسی خوش نصیب کے لئے تیار ہورہا تھا ۔اس نے ۸۵۷ ھ مطابق ۱۴۵۳ء میں اسے فتح کرلیا (۲)۔ سلطان نے فتح کے بعد سب سے پہلے قسطنطنیہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزار پر ایک جامع مسجد بنوائی ، اور قسطنطنیہ کو دارالخلافہ قراردیدیا ، جامع مسجد میں سلاطینِ عثمانیہ کی تاج پوشی کی رسم اداکی جانے لگی (۳)۔
سلطان محمد فاتح کی وفات ۱۴؍ ربیع الاول ۸۸۶ھ (۱۴۸۱ء)میں ۵۱سال کی عمر میں ہوئی، قسطنطنیہ ہی میں شاہی مقبرے کے لئے جو زمین اس نے متعین کی تھی وہیں وہ سپردخاک کیا گیا۔ مجھے اس تاریخ ساز ، ایمان سے سرشار فاتح کے مزار پر بھی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ مزار کے پاس نمایاں طورپر لکھی ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث آنے والوں کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے کہ :

"لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطُنْطِیْنِیَّۃُ ، فَلَنِعْمَ الْاَمِیْرُ اَمِیْرُھَا ، وَلَنِعْمَ الْجَیْشُ ذٰلِکَ الْجَیْشُ "
"قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا اُس کا امیر اچھا امیر ہوگا ، اور وہ لشکر اچھا لشکر ہوگا۔”(مسند احمد)

قسطنطنیہ کا موجودہ نام استنبول ہے، اس خوبصورت شہر کا ایک حصہ ایشیاء میں اور دوسرا یورپ میں ہے، دونوں حصوں کے درمیان سمندر کی آبنائے باسفورس ہے جو بحر مَرْمَرَہْ کو بحر اسود سے ملاتی ہے ۔ استنبول کا جو حصہ یورپ میں ہے اُسی کے ایک بڑے حصے میں قسطنطنیہ تھا ، جس کی ۳۲ کلومیٹر لمبی فصیلوں کی پختگی کا کچھ اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلطان محمد فاتح کی جانباز فوجیں اس پر توپوں سے گولہ باری کرکے جگہ جگہ سے توڑ کر اندر داخل ہوئی تھیں ، توپوں نے اسے جگہ جگہ سے چھلنی کردیا تھا ، اور آج بھی تقریباً ساڑھے پانچ سو سال گذر نے کے باوجود اس کے کھنڈر مضبوط حالت میں موجود ہیں ۔ اور بعض مقامات پر تو اب بھی اپنی اصلی حالت میں باقی ہے ۔
فتحِ قسطنطنیہ کا یہ عقل کو دنگ کردینے والا ایمان افروز کارنامہ جس منفرد انداز میں انجام دیا گیا وہ صرف تاریخ اسلام کا نہیں بلکہ تاریخ عالم کا بھی بے نظیر باب ہے ۔ اس کی تفصیلات اتنی زیادہ ، ایسی دلچسپ اور حیرت ناک ہیں کہ انہیں بیان کرنے کے لئے بہت لمبے وقت کی ضرورت ہے ۔ یہ کام برادر عزیز مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے مشہور سفرنامے "جہانِ دیدہ”میں کربھی چکے ہیں ، اس لئے اسے یہیں چھوڑتا ہوں ۔
فتحِ یونان وغیرہ
سلطان محمد فاتح نے جب یہ دیکھا کہ یونان میں مسلسل داخلی گڑبڑاور خانہ جنگی کا سلسلہ چلا آرہا ہے ، اور یہاں کے باجگزار حکام وقتاً فوقتاً تمام معاہدوں کو پسِ پشت ڈال کر عثمانی حکومت کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں بھی کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اب طاقت وقدرت ہونے کے باوجود یونان کی ان شرانگیزیوں کو اسی طرح جاری رہنے دینا عثمانی حکومت کے لئے خطرے کا باعث بنتا جارہا تھا ، اس لئے سلطان محمد فاتح نے مستقل طورپر اس شر سے بچنے کے لئے ۱۴۵۸ء میں یونان پر فوج کشی کی اور دو سال کے عرصے میں جزیرہ نمائے یونان کے تمام حصوں پر قبضہ حاصل کرلیا(۱)۔
یونان کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح سرویاکی طرف متوجہ ہوا اور شاہ سرویا جارج برنیکوویچ کو شکست دی ، یہ خبر سن کر ایک عیسائی جرنیل ہونیاڈے سرویا کی مدد کے لئے پہنچا اور اس سے سخت مقابلہ کیا جس کی وجہ سے ترکوں کو کامیابی حاصل نہ ہوئی ، لیکن سر ویا کے باشندوں نے کلیسائے رومہ کی مذہبی تعدیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں سے سالانہ خراج کی ادائیگی پرصلح کرلی ۔
دوسرے سال پھر سخت مقابلہ ہوا لیکن سلطان محمد فاتح نے عیسائیوں کو شکست فاش دے کر ۸۶۳ھ مطابق ۱۴۵۹ء میں سرویا پر مکمل قبضہ حاصل کرلیا(۱)۔
فتحِ بوسنیا
سرویا اور دیگر ریاستوں کی طرح بوسنیا میں بھی جنگِ اقتدار برپا تھی اور لاطینی اور یونانی کلیساؤں کے معرکوں کا بازار گرم تھا ، تاہم داخلی پریشانیوں کے باوجود شاہ بوسنیا ۸۶۶ ھ مطابق ۱۴۶۱ء میں پاپائے روم کے پاس پہنچا اور اس سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف مدد طلب کی ۔ شاہ بوسنیا نے واپس آکر سلطنت عثمانیہ سے کئے ہوئے معاہدوں کو توڑ ڈالا اور سلطان محمد فاتح کے بھیجے ہوئے ایلچیوں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کیا اور انہیں خراج اداکرنے سے صاف انکار کردیا ۔
ان حالات کی بنا پر سلطان محمد فاتح نے ۸۶۷ھ مطابق ۱۴۶۲ء میں بوسنیا پر حملہ کیا اور اسے فتح کرلیا، چونکہ اہل بوسنیا کلیسا کے مظالم سے تنگ آچکے تھے اس لئے انہوں نے ترکوں کا خیر مقدم کیا اور ایک بڑی تعداد میں افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔
فتحِ موریا
موریا کے فرمان رواؤں کو بھی یورپ نے دولتِ عثمانیہ کے خلاف ابھارا تو انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خراج کی رقم اداکرنے سے انکار کردیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ۔ چنانچہ سلطان محمد فاتح ایک بڑی فوج لے کر موریا آیا اور متعدد قلعوں کو فتح کرتا ہوا پتراس پہنچا جو موریا کے فرمانرواؤںطامس اور دمتریس کا مستقر تھا ۔ سلطان نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ بڑی رحمدلی اور فیاضی کا برتاؤ کیا ۔ طامس اور دمتریس نے صلح کی درخواست کی جسے سلطان محمد فاتح نے قبول کیا اور موریا سے واپس چلاگیا ، لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد طامس اور دمتریس نے پھر شورش برپا کرنی شروع کردی جس کی وجہ سے سلطان محمد فاتح کو واپس آنا پڑا اور موریا مکمل طورپر سلطنتِ عثمانیہ کے قبضہ میں آگیا۔
دیگر فتوحات
سرویا ، بوسنیا اور موریا کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح دوسرے ایشیائی و یورپی ممالک کی طرف متوجہ ہوا ، اس نے کرمانیہ ، طرابروں اور سیوپ پر فتح حاصل کی ، ولاچیا ، البانیا اور ہرزیگونیا کے ساتھ ساتھ وینس اور جنوا پر بھی قبضہ حاصل کیا ۔ ۱۴۸۰ء میں سلطان کی فوج نے جنوبی اطالیہ میں برنڈزی کے قریب اوٹرانٹو شہر کو فتح کیا(۱)۔ اوٹرانٹو جیسے مضبوط شہر اور اہم بندرگاہ پر قبضہ کرنے کے بعد سلطان کے لئے اٹلی کی فتح کا راستہ کھل گیا تھا، سلطان محمد فاتح اب کسی اور مہم کے لئے فوجیں اکٹھی کررہا تھا کہ ۸۸۶ھ مطابق ۱۴۸۱ ء کو اچانک آپ کا انتقال ہوگیا ۔
اہل یورپ سلطان محمد فاتح سے اس قدر خائف تھے کہ آپ کی وفات پر انہوں نے جشن مسرت منایا ، اور مسلسل تین روز تک شکرانہ کی نمازیں پڑھیں۔
یونان کی سرحدیں البانیہ ، بُلغاریہ اور ترکی سے بھی ملتی ہیں ، انہی دنوں برادرِ عزیز مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب البانیہ کا دورہ کررہے تھے ، یہاں پر فون سے ان سے بھی رابطہ ہوتا رہا ۔
جو علاقہ ترکی سے ملتا ہے اُس کے مرکزی شہر "کوموتینی”(KOMOTINI)بھی ۱۴؍ گھنٹے کا سفر بذریعہ ریل کرکے جانا ہوا ، اس سفر میں مولانا عبدالرزاق صاحب کے علاوہ ہمارے دارالعلوم کراچی کے پڑوسی، کورنگی کے ایریا کے ایک نوجوان محمد عارف سلمہ بھی بہت محبت سے پیش پیش رہے ۔ اور والہانہ انداز میں خدمت کرتے رہے ۔ یہ اور ان کے بھائی عاطف سلمہ بھی ایتھنز میںکاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں کئی سال سے مقیم ہیں ۔ جب کراچی آتے ہیں تو ملتے رہتے ہیں اور تبلیغ میں بھی وقت لگاتے ہیں ۔
پاکستان میں اپنی ریلوے کی زبوں حالی دیکھ دیکھ کر جو کڑھن اور کوفت ہوا کرتی ہے ، یونان کی اس ریل میں سفر کرکے اس میں کچھ افاقہ محسوس ہوا ، اور یہ دیکھ کر کچھ صبر سا آنے لگا کہ یورپ کے اس ملک کی ریل کا حال اس سے بھی زیادہ قابلِ رحم ہے ۔ راستے میں جو اسٹیشن آئے وہ بھی غیر آباد اور غیر ترقی یافتہ تھے ، جو بستیاں نظر آئیں وہ بھی ایسی ہی معلوم ہوئیں ،یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح اس ملک کی بھی قومی (یونانی) زبان ہی سرکاری اور دفتری زبان ہے ، یونانی زبان ہی ذریعۂ تعلیم ہے چنانچہ یہاں کے بچوں کے اسکول کے بستے بھی ایسے بھاری نہیں ہوتے جتنے پاکستان کے کم سن بچوں کو کھینچنے پڑتے ہیں ۔
"کوموتینی”میں تُرک مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے ، اور اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنا اسلامی تشخص بھی کسی حدتک باقی رکھا ہوا ہے ، مسجدیں بھی فی الجملہ آباد ہیں ۔ سرکاری طورپر اس علاقے کے مفتی سرکاری طورپر جناب "میکلو جمالی” ہیں ، ان کی دعوت پر اُن کے منظم اور بارونق دفاتر بھی دیکھے اور وہیں ان سے ملاقات ہوئی ۔ یہاں مسلمانوں کے شخصی قوانین (پرسنل لا)کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں ، نیز یہ وہاں کے مسلمانوں کے معاشرتی اور انتظامی معاملات میں رہنمائی اور حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ۔ یہ معلوم کرکے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں وہ اور ان کا سارا عملہ بہت خوش نظر آیا۔ ہمارا پرتباک استقبال کیاگیا۔
وسطِ ایشیا کے مسلم ممالک "ماوراء النہر” کا علاقہ
پھر ابھی حال ہی میںہمارا وسطِ ایشیا کے مشہور ملک "کرغیزستان” جانا ہوا ، چھ دن کا سفر تھا ، اب سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے واپسی ہوئی ، یہ اُن مصیبت زدہ مسلم ممالک میں سے ایک ہے جس پر ۷۲، ۷۴سال کمیونزم کا ظلم وتشدد مسلط رہا ، وسط ایشیا کے ممالک پانچ ہیں ، تاجکستان ، ازبکستان ، ترکمانستان ، کر غیزستان ، قزاقستان۔ روسی تسلط سے پہلے ان کا مجموعہ مغربی ترکستان کہلاتاتھا ، روسی دور اقتدار میں اسے”روسی ترکستان”کہاجانے لگا۔اور اس کو ہماری قدیم کتابوں میں "ماوراء النہر” کہا گیا ہے ، اسلام کی ابتدائی صدیوں میں یہ ممالک "خراسان” کا حصہ تھے ، اب تو ایران کے صرف ایک صوبے کا نام خراسان ہے ، مگر اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اس صوبے سمیت ماوراء النہر کا علاقہ بھی خراسان کا حصہ تھا ، اور افغانستان کا بھی بہت بڑا علاقہ خراسان میں تھا ۔یہ ممالک صدیوں اسلامی علوم وثقافت کے گہوارے ، اور عظمت اسلام کا عنوان رہ چکے ہیں ۔یہ سارا علاقہ معدنیات ، زرعی پیداوار اور ٹیکنالوجی سے مالا مال ہونے کے علاوہ تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیتوں کا وطن ہے ، اس مردم خیز خطے سے جلیل القدر محدثین ومفسرین ، فقہائے مجتہدین ، نابغہ روز گار متکلمین، مایہ ناز مسلم سائنس دان وحکماء ، اور مشہور عالم حکمران ، سیاسی رہنما ، فوجی جرنیل اور بابرکت اولیاء اللہ پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ عالم پر اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ "علمائے ماوراء النہر” کی علمی ، فنی اور تحقیقی کاوشوں سے تو اسلامی علوم وفنون کے ذخائر ، کتب خانے ، اور مدارس آج بھی پوری دنیا میں جگمگارہے ہیں ۔ لیکن روسی قبضے کے دورمیں یہ ممالک پوری دنیا سے بالکل کاٹ دیئے گئے تھے ، اندر کی آواز باہر نہیں جاتی تھی ، باہر کی اندر نہیں آسکتی تھی ، علماء کا قتل عام کردیا گیا تھا ، اپنے خیال میںکمیونسٹوں نے تمام علماء کا خاتمہ کردیا تھا ، جس کے بارے میں پتہ چلتا کہ یہ عالم دین ہے ، اسے قتل کردیا جاتا ، اور قتل بھی طرح طرح سے کیا جاتا تھا، بہت سے علماء کو خندقوں میں ڈال کر اوپر سے چونا بھر کے زندہ دفن کردیا گیا ، کچھ کو سائبریا کے برفستانوں میں لے جاکر ڈال دیا گیا ، تاکہ بھوکے پیاسے اور برف سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں ، بہت سوں کو گولیوں اور گولوں کا نشانہ بنادیا گیا ، جو لوگ جان بچاکر نکلنے میں کامیا ب ہوئے ، سعودی عرب ، پاکستان ، ہندوستان اور افغانستان میں آکر آباد ہوگئے ، مگر وہ تھوڑے تھے ۔
جہاد افغانستان کے نتیجے میں آزاد ہونے والے ممالک
کمیونسٹ فوجوں کے خلاف جہاد افغانستان کے نتیجے میں بحمداللہ ان پانچ ملکوںسمیت کئی اور مسلم ممالک بھی آزاد ہوئے ۔ کمیونسٹ کا ۲۹ مسلم ممالک پر قبضہ تھا ، جن میں سے کچھ یورپ میں اور باقی ایشیا میں ہیں ، دنیا کو ان کے بارے میں عام طور سے معلوم ہی نہیں تھا ، میں نے اپنی کتاب "یہ تیرے پراسرار بندے” میں ان ۲۹؍ ممالک کا مختصر تعارف کرایا ہے کہ وہاں کمیونسٹ حکومت کب مسلط ہوئی ؟ اور پھر آزادی کب ملی؟کرغیزستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے ۔
اُس جہاد کے دوران افغانستان میں پندرہ لاکھ شہیدوں نے اپنا خون دیا ، وہ شہداء صرف افغانستان ہی کے باشندے نہیں تھے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان تھے ۔ شاید ہی عالم اسلام کا کوئی ملک اور علاقہ ایسا بچاہوگا جہاں کے مجاہدین نے جہا دمیں آکر یہاں اپنا خون نہ دیا ہو ۔ شہداء کی اتنی بڑی قربانیوں کے نتیجے میں ۲۹؍ مسلم ممالک میں سے ایک بڑی تعداد آزاد ہوگئی ، اور ساتھ ساتھ کئی عیسائی ریاستیں بھی آزاد ہوگئیں۔ روس نے ان پر بھی قبضہ کررکھا تھا ، "بالٹک”کی جور یاستیں آزاد ہوئی ہیں وہ عیسائیوں کی تھیں۔
لیکن افغانستان ابھی تک آزاد نہیں
لیکن المناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے افغانستان کا مسئلہ حل نہ ہوسکا ۔ مجاہدین نے گیارہ سال تک جنگ کرکے کمیونسٹ فوجوں کو تو بھگادیا مگر اب وہاں آکر امریکہ مسلط ہوگیا ہے ۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِاُوْلِی اْلاَبْصَارِ(آل عمران :۱۳)
” ان واقعات میں بڑی عبرتیں ہیں "

جو قربانیاں دی گئیں وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی دی گئی تھیں ، پندرہ لاکھ شہداء نے بدترین کفر کا مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیاتھا، اور جو قربانیاں اللہ کے راستے میںدی جائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں ، آخرت میں ان کا عظیم اجروثواب تو ہے ہی ، دنیا میں بھی اس کے نہایت خوشگوار اثرات نکلتے ہیں ، لیکن وہ اثرات کبھی فوری طورسے اسی جگہ رونما ہوتے ہیں جہاں قربانیاں دی جاتی ہیں ، کبھی وہ اثرات کسی اور علاقے میں یا بعد کے زمانے میں ظاہر ہوتے ہیں ، لیکن قربانیاں بہرحال رنگ لاتی ہیں ۔افغانستان کے اندر بھی قربانیاں دی گئیں ،اس کے اثرات وسطِ ایشیا کے ممالک پر اور یورپ کے بعض مسلم ممالک البانیہ اور بوسنیا وغیرہ پر پڑے ، حتی کہ مسلم ممالک آزاد ہوگئے ، کچھ ممالک مثلاً چیچنیا وغیرہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکے ۔ افغانستان کا بھی تقریباً یہی حال ہے ۔ ان شاء اللہ ۔ وہ وقت بھی آئے گا جب افغانستان بھی آزاد ہوگا۔ دل گواہی دے رہا ہے کہ اگر افغانستان کے مسلمان متحد ہوگئے تو :
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
اور ظلمت رات کی سیماب پاہوجائے گی یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
روس کو شکست امریکہ نے نہیں دی
یہ جو آج کل پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ روس کو یہاں شکست امریکہ نے دی تھی ، اور مجاہدین نے افغانستان میں امریکا کی لڑائی لڑی ہے ، یہ غلط پروپیگنڈہ ہے، زمینی حقائق اور واقعات اس کی پر زور نفی کرتے ہیں ۔اگر امریکہ میں روس کو شکست دینے کا دم خم ہوتا تو "ویت نام”کے اندر امریکی فوجیں شرمناک شکست نہ کھاتیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہاں مجاہدین ِاسلام نے اسلام کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں اور اس سرزمین کو بدترین کفر سے بچانے کے لئے دی تھیں ۔ روس کا اصل ہدف پاکستانی بلوچستان کا ساحلی علاقہ تھا ، جہاں سے اسے گرم سمندر مل سکتا تھا ، اُس کے ذریعے وہ شرقِ اوسط تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ افغانستان تو اس کے راستے کی ایک منزل تھی ، وہاں اس کا قبضہ مکمل ہوجاتا تو پاکستان پر حملہ کرنا اس کے لئے آسان ہوجاتا۔ مجاہدینِ افغانستان نے افغانستان میں درحقیقت پاکستان کی جنگ لڑی تھی ۔ ہاں ! امریکہ کے مفاد میں بھی یہ تھا کہ وہ مجاہدین کی مدد کرے مگر امریکہ نے ان کی مدد جہاد شروع ہونے کے کئی سال بعد اُس وقت شروع کی جب اس نے دیکھا کہ پرانی بندوقوں ، اور ڈنڈوں اور پتھروں سے جہاد شروع کرنے والے جانبازوں نے روسی فوج کے خوفناک طوفان کو روک دیا ہے ، اور اب ان کے جیتنے کے قوی امکانات پیدا ہورہے ہیں ، اُس وقت اُس نے اس جنگ میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری فتح کا سہرا ان شہیدوں اور غازیوں کے سر ہے جنہوں نے اسلام اور پاکستان کے لئے قربانیاں دی تھیں۔
المناک صورت حال
لیکن المناک صورتِ حال بعد میں یہ سامنے آئی کہ مسلمانانِ افغانستان آپس میں لڑ پڑے ، شروع میں مجاہد تنظیمیں آپس میں ایک دوسرے پر گولہ باری کرتی رہیں ، اس کے بعد جب طالبان نے مجاہد تنظیموں کی لڑائیاں ختم کرکے امن وامان قائم کردیا تو شمالی افغانستان کو مقابلے پر کھڑا کردیاگیا۔ اور ان سے جنگ ہوتی رہی ، آپس کی پھوٹ اور خانہ جنگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ آکر مسلط ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
یہ ہمارے لئے عبرت کی بات ہے ، مسلمانوں کو کبھی بھی دشمن ، طاقت سے شکست نہیں دے سکا، مسلمانوں کو شکست ہمیشہ آپس کی پھوٹ سے ہوئی ہے ، اور بعض مسلمانوں کی غداریوں سے ہوئی ہے ، بعد کے واقعات نے بتلایاکہ جولوگ اُس وقت جہاد میں پیش پیش نظر آتے تھے ان میں بعض لوگ غدار بھی تھے ، اور ان کا دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں سے گٹھ جوڑ بھی تھا ، نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہوسکا۔اللہ تعالیٰ اس صورتِ حال سے جلد نجات عطا فرمائے ۔ آمین۔

جاری ہے ……

٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More