>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ھے(تیسری اور آخری قسط)

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وتحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا محمد حنیف خالد صاحب

نیک جذبات کے ساتھ حکمت بھی دین کا تقاضا ہے
(تیسری اور آخری قسط)

یہاں کے دارالحکومت بِشکِکْ میں
ہمارا طیارہ لاہور سے شبِ جمعہ میں روانہ ہوکر صبح سویرے ازبکستان کے دارالحکومت "تاشقند”ائیرپورٹ پر اترا، نماز فجر اور ناشتے کے بعد یہاں سے دوسرے طیارے میں روانہ ہوکر تقریباً ایک گھنٹے میں کرغیزستان کے دارالحکومت "بِشکِکْ ” پہنچے ، یہ اچھا بڑا شہر ہے ، سارا علاقہ سرسبز وشاداب ہے ۔ ائیرپورٹ سے سیدھے یہاں کی مرکزی جامع مسجد پہنچ کر نماز جمعہ ادا کی ، بہت بڑا اجتماع تھا ، اس کے بعد مسجد سے متصل ایک مکان میں ہمارے اعزاز میں ایک بڑی ضیافت کا انتظام تھا ، جس میں کرغیزستان کی اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی ۔
بِشکِکْ میں قیام بہت مصروف رہا ، اہم اداروں میں بیانات ، مختلف امور میں مجالس مشورہ ، ملک کی اہم سرکاری وغیرسرکاری شخصیات اور وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ دلچسپ بھی تھا اور مفید بھی ۔جن اداروں میں جانا ہوا ، ان کی مثبت اور حکیمانہ دینی خدمات کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا ، ان حضرات نے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی اور سیاسی نزاعات میں الجھنے کے بجائے ، دینی تعلیم وتربیت اور تبلیغ کو اپنی جدوجہد کا محور بنایا ہے ۔ جس سے حکمران طبقہ بھی متأثر اور مانوس ہورہا ہے اور اس کے خوشگوار اثرات یہاں کی سرکاری پالیسیوں اور آئندہ کی منصوبہ بندیوں میں ظاہر ہورہے ہیں ۔
جن اداروں میں جانا ہوا اور بیانات ہوئے اُن میں بشکک کی (۱) مرکزی جامع مسجد(۲) اسلامی یونیورسٹی (۳) دارالعلوم بشکک ، اور (۴) مدرسہ ابن مسعود خاص طورسے قابل ذکر ہیں ۔
ہم جمعہ کو یہاں آئے تھے ، اگلے ہی دن ہفتے کی صبح دس بجے بشکک شہر سے باہر ایک پہاڑی تفریح گاہ الارچہ میں ہمارے اعزاز میں عمائدین شہر کے اجتماع اور دوپہر کے کھانے کی ضیافت کا پرتکلف انتظام نہایت خوبصورت مقام پر کیاگیاجہاں بہت ہی خوشگوار خنکی اور ابرا ٓلود موسم تھا ۔ اس ضیافت میں تقریباً ملک کے تمام طبقات کی اہم شخصیات شریک تھیں ، اعلیٰ سرکاری حکام، جن میں وزارتِ مذہبی امور کے ذمہ داران زیادہ پیش پیش تھے، بڑے شوق وذوق سے شریک ہوئے تھے ، اور ہم سے استفادے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ان میں کئی افسران اچھی عربی زبان جانتے تھے ، اور مصر وغیرہ عرب ممالک سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے ۔ یہاں بعض پہاڑی گلیوں میں ہمیں گھوڑا سواری سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، ہفتہ ہی کو بعد مغرب سینٹر مسجد (مرکزی جامع مسجد) میں بیان ہوا۔
"دارالعلوم بشکک” تو حال ہی میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ہونہار فارغ التحصیل مولانا محمد علی صاحب نے قائم کیا ہے ۔ یہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے جامعہ دارالعلوم کراچی میں آکر جب داخل ہوئے تو بچے تھے ، اس وقت ان کی عمر بمشکل ۱۲ یا ۱۳ سال ہوگی ، تقریباً آٹھ سال یہاں انہوں نے ایسی یکسوئی اور مستعدی سے تعلیم حاصل کی کہ اپنی جماعت میں ہمیشہ نمایاں رہے ، پانچوں وقت کی نمازوں میں ، میں ان کو عموماً صف اول میں دیکھتا تھا ، جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ان آٹھ سالوں کے دوران تعطیلات کے زمانے میں بھی کبھی وطن نہیں آئے، بس تعلیم سے فارغ ہوکر ہی وطن واپسی ہوئی ، بچے آئے تھے ، جوان ہوکر واپس ہوئے ، اور اسی وقت سے بحمداللہ دینی ، علمی اور تبلیغی خدمات میں شب وروز لگے ہوئے ہیں ۔
دارالعلوم بشکک کو ماشاء اللہ شہر کے مضافاتی محلے میں جگہ اچھی خاصی وسیع عریض ملی ہے ، اتوار کو یعنی بشکک پہنچنے کے تیسرے دن ، بعد عصر یہاں بیان بھی ہوا ، اہل علم اورعوام الناس کی اچھی خاصی تعداد جمع تھی ، اس مدرسہ کا نام اُس وقت تک طے نہیں ہوا تھا ، بندے ہی نے فال نیک کے طوراس کا یہ نام تجویز کیا ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے حقیقی معنی میں دارالعلوم بنائے ۔
بعد مغرب "مدرسہ ابن مسعود” میں حاضری ہوئی ، ماشاء اللہ یہاں بھی دینی تعلیم وتربیت کا اچھا کام ہورہا ہے ، کُل ایک سو طالبعلم ہیں ۔ جن میں سے ۱۳؍طلبہ حفظِ قرآن میں مشغول ہیں باقی درسِ نظامی میں زیر تعلیم ہیں ۔ فی الحال یہاں مرحلہ ثانویہ تک تعلیم ہورہی ہے ۔
یہ مدرسہ پاکستان کے تبلیغی مرکز "رائے ونڈ” سے فیض یافتہ ہے ، ایک مصری استاذ کے علاوہ تمام اساتذہ رائے ونڈ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں جن میں مولانا مقصد صاحب خاص طورپر نمایاں ہیں ، وہی اس مدرسہ کے مدیر بھی ہیں ، ان کے ساتھ بشکک کے تقریباً سارے ہی پروگراموں میں رفاقت رہی ۔ یہاں ایک ہونہار بچے "محمد” نے تلاوت کی جس کی عمر کا گیارہواں سال ہے ، اور ماشاء اللہ خوب تلاوت کی ، یہ روس کے دور افتادہ علاقے "تاتارستان” کے شہر "قازان” کا پھول جیسا بچہ تعلیم کے لئے یہاں آیا ہوا ہے، اس نے صرف ساڑھے چار ماہ میں ساڑھے تین پارے حفظ کرلئے ہیں ۔ وللہ الحمد ۔
اگلے دن پیر کو ہم بذریعہ طیارہ کرغیزستان کے دوسرے بڑے شہر "اُوش” گئے ، یہ قدیم شہر بہت سے عظیم تاریخی واقعات کا امین ہے جن کو بیان کرنے کا اس وقت موقع نہیں ۔ یہاں سے ازبکستان کی سرحد قریب ہے ، چنانچہ ہماری اطلاع پاکر جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فاضل مولانا حکمت اللہ صاحب جو ازبکستان کے باشندے ہیں ۔ اپنے کئی رفقاء کے ساتھ پہنچ گئے ۔ یہ بھی جامعہ دارالعلوم کراچی میں اول سے آخر تک زیر تعلیم رہے ، اور اب تاشقند میں تجارت بھی کرتے ہیں اور ایک مسجد کی امامت وخطابت بھی سنبھالی ہوئی ہے ۔ فی الحال وہاں مدرسہ کا کام ممکن نہیں رہا ۔جس کی وجہ پیچھے بیان کرچکا ہوں ۔
"اُوش” سے کچھ فاصلے پر یہاں کا ایک تاریخی شہر "اوز جند”ہے ، وہاں خاص طورسے اس لئے جانا ہوا کہ یہ فقہ کے مشہور امام "قاضی خان” رحمۃ اللہ علیہ کا وطن ہے ، حضرت قاضی خان رحمۃ اللہ علیہ فقہائے احناف کے اُس طبقے کے مجتہد ہیں جن کو "اصحاب الترجیح” کہا جاتا ہے ۔ان کے تحریر کردہ فتاویٰ کا مجموعہ "فتاویٰ قاضی خان”بحمداللہ آج دنیا کی علمی لائبریریوں کی زینت ، اور دار الافتاؤں میں فتاویٰ کے بنیادی مآخذ میںشامل ہے ۔
ان کے مدرسے کی چہار دیواری کی اب صرف بنیادیں باقی رہ گئی ہیں ، مگر مدرسے کی عمارت باقی ہے ، قریب میں ایک اونچا اور بہت موٹا مینار ہے ، جس کی کچھ فنی اور تاریخی اہمیت بھی بیان کی گئی جو بندے کو اس وقت یاد نہیں آرہی ۔ قاضی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار کہاں ہے ؟ مقامی لوگوں سے، جو ہم سے ملنے کے لئے یہاں جمع ہوگئے تھے ، پوچھا تو کوئی بھی نہ بتا سکا۔
مغرب کی نماز ہم نے یہیں پڑھی ، پھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک محلے میں مشہور فقیہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت نصیب ہوئی ۔یہ گھنی آبادی کے اندر عرصۂ دراز سے گم نامی اور کسمپرسی کے عالم میں تھا ، کمیونسٹ اقتدار ہٹنے کے بعد اس کی طرف کچھ توجہ کی گئی ۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب "المبسوط ” جو تیس (۳۰) ضخیم جلدوں میں ہے ، اور "مبسوطِ سرخسی” کے نام سے مشہور ہے ، اِن کا وہ عظیم اور محیّر العقول کارنامہ ہے ، جس پر علمی دنیا آج تک دنگ ہے ۔
وقت کے ظالم حکمران کو جب اِن سے اپنی مرضی کا فتویٰ نہ ملا تو انہیں ایک گہرے خشک وتاریک کنویں میں قید کردیاتھا ، اس کنویں میں یاد پڑتا ہے کہ بارہ سال سے زیادہ قید رہے ، اور اسی قید کی حالت میں انہوں نے مذکورہ عظیم الشان کتاب تالیف فرمائی ۔
عزیز طلبہ !
دیکھئے ! شریعت اور سنت کے مطابق حکمت سے کام کیا جاتا ہے تو کتنا فائدہ ہوتا ہے ، قرآن نے حکمت کی تاکید کی ہے ، جب اس کو چھوڑا جاتا ہے تو بہت نقصان اٹھانے پڑتے ہیں ، ہمارے بعض طلبہ میں جذباتیت آجاتی ہے ، آپ کے لئے آج کے بیان میں سبق یہ ہے کہ دین کی خدمت قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق حکمت کے ساتھ ہونی ضروری ہے ۔ اس سبق کو یاد رکھئے اور اپنے جذبات کو قرآن وسنت اور حکمت کے تابع رکھئے ، دنیا میں فتنے تیزی سے پھیل رہے ہیں ، اِن سے بچنے کا یہی راستہ ہے اور فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی مانگتے رہیں ۔
عالمگیر اسلامی انقلاب
میں پہلے بھی بار بار کہتا رہا ہوں کہ موجودہ ناساز گار حالات کے باوجود الحمدللہ ایک عالمگیر اسلامی انقلاب بھی ساتھ ساتھ آرہا ہے ، یہ فوجی انقلاب نہیں ، ذہنوں کا انقلاب ہے ، عمل کا انقلاب ہے ، اس انقلاب کی خوشگوار لہریں آج پوری دنیا میں دیکھی جاسکتی ہیں ، آج امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین اسلام ہے ، مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، اور وہاں کے لوگ مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں ، مرد بھی عورتیں بھی ، یہی حال تقریباً یورپ کے دوسرے ملکوں کا اور خصوصاً فرانس کا ہے ، ساری دنیا میں مسلم نوجوان اپنے دین کی طرف واپس آرہے ہیں ، اور ابھی میں کرغیزستان میں بھی وہ انقلاب دیکھ کر آرہا ہوں ، انقلاب کا کیا مطلب؟ ہر جگہ جنگ نہیں ہورہی ، وہاں تبلیغ اور تعلیم دین کا کام ہورہا ہے ، یہ بھی اسلامی انقلاب ہے ۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے آثار ہیں ۔
یہ بات بھی اصلاح طلب ہے کہ جب لوگ انقلاب کا لفظ سنتے ہیں تو اس سے صرف جنگ اور قتال اور خون ریز انقلاب مراد لیتے ہیں ، حالانکہ انقلاب آتا ہے تعلیم دین سے ۔ اور حکمت و مصلحت اور شریعت کے مطابق جہاد بھی کرنا پڑتا ہے ، آپ دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تعلیم تو پہلے دن سے شروع ہوگئی تھی ۔ غار حراء میں سب سے پہلے وحی یہ آئی کہ :

"اِقْرَأْ باِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ "(سورۃ العلق آیت نمبر : ۱)
"اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم)آپ (پر جو)قرآن (نازل ہوا کرے گا جس میں اس وقت کی نازل ہونے والی آیتیں بھی داخل ہیں) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے”

پھر تقریباً ڈھائی سال بعد جب سورئہ مدثر نازل ہوئی تو تبلیغ اسلام کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا :

"یٰا اَ یُّھَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ "(المدّثّر: ۱،۲)
"اے کپڑے میں لپٹنے والے اُٹھو (یعنی اپنی جگہ سے اُٹھو یا یہ کہ مستعد ہوجاؤ) پھر (کافروں کو اللہ کے عذاب سے)ڈراؤ(جو کہ مقتضا منصب نبوت کا ہے ، اور یہاں تبشیر یعنی جنت کی بشارت کا اس لئے ذکر نہیں فرمایا کہ یہ آیت بالکل ابتدائے نبوت کی ہے ، اور اس وقت باستثناء ایک دوکے کوئی مسلمان نہیں تھا تو عذاب سے ڈرانا زیادہ مناسب تھا)”

اور فرمایاگیا :

"وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ "(الشعراء : ۲۱۴)
اور آپ (اللہ کے عذاب سے سب سے پہلے) اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرائیے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ :

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (الحجر : ۹۴)
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس بات (کے پہنچانے) کا حکم کیا گیا ہے اس کو (تو)صاف صاف سنادیجئے اور (اگر یہ نہ مانیں تو)ان مشرکوں (کے نہ ماننے) کی (مطلق) پرواہ نہ

کیجئے (یعنی غم نہ کیجئے ، جیسا اوپر آیا ہے "لاَ تَحْزَنْ "اور نہ طبعی طورپر خوف کیجئے کہ یہ مخالف بہت سے ہیں ۔۔۔)”
اس طرح تبلیغ کا کام شروع ہوگیا ، جہاد کا کام ہجرت کے بعد شروع ہوا ۔
جہاد کے فضائل بلاشبہ بہت ز بردست ہیں ، اور جب ان فضائل کو ہم قرآن وسنت میں دیکھتے ہیں تو دل یہ چاہتا ہے کہ بس جہاد ہی کرتے رہیں۔
ہمارے والد صاحب رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں اس طرح شہید ہوں کہ میرا سر کہیں پڑا ہوا ہو، ہاتھ کہیں کٹا ہوا ہو ، اس طریقے سے اللہ تعالیٰ شہادت عطا فرمائے ، جہاد کی بھی توفیق دے ، غازی بھی بنائے ، شہید بھی بنائے ۔ لیکن اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے حکمت کے ساتھ ، شریعت کے احکام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ساتھ ، تاکہ خیر وبرکت ہو ، اللہ تعالیٰ کی مدد آئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہوجائے ۔
نوجوانوں کے اندر جوش وجذبہ بہت ہوتا ہے ، کوئی سنجیدہ بات کہیں تو مشکل سے سمجھ میں آتی ہے ، اس میں بہت سے نوجوانوں کو مزا نہیں آتا ، مزا آتا ہے ایسے کام میں جس میں نعرے ہوں ، شور شرابہ ہو ، بھاگ دوڑ ہو ، آپس میں لڑائیاں ہوں ، بعض نوجوانوں کو اس کے بغیر مزا نہیں آتا ، خوب سمجھ لو کہ صرف جذبات کے پیچھے بھاگنا ٹھیک نہیں ہے ، دین اپنے جذبات پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ، پڑھے لکھے لوگوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ صرف جذبات کے پیچھے بھاگتے رہیں اور ۔ الحمد للہ ۔ ہمارے طلبہ ایسے ہیں بھی نہیں ۔
الحمدللہ! عالمگیر اسلامی انقلاب تو بہت پڑے پیمانے پر آرہا ہے ، مگر خطرناک بات یہ ہے کہ یہ انقلاب قیادت سے محروم ہے ، جبکہ متفقہ قیادت کے بغیر عالمگیر انقلاب کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا ، متفقہ قیادت کے بغیر یہ انقلاب افرا تفری کا شکار ہوسکتا ہے ، اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لئے یہ بات ناگزیر ہے کہ طلبہ وعلماء جذباتیت کا راستہ چھوڑ کر علم کا ، تقویٰ کا ، اور سنت کا راستہ اختیار کریں ، جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں تبلیغ کریں ، جہاں تعلیم کی ضرورت ہو وہاں تعلیم دیں ، جہاں اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے یا مسلمانوں کے دفاع کے لئے جہاد کی ضرورت ہو وہاں جہاد کریں ، جان کی بازی لگادیں ، لیکن موقع محل دیکھ کر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمات دی ہیں ان کو اختیار کریں ، یہ دیکھیں کہ کہاں جہاد کا موقع ہے ؟ کہاں تعلیم کا ہے ؟ کہاں تبلیغ کا؟ اور اس سلسلہ میں اپنے بزرگوں اور رہنماؤں کی ہدایات پر عمل کریں ۔
اپنے آپ کو قیادت کے لئے تیار کیجئے ، یاد رکھئے ! اس انقلاب کی قیادت علماء ہی کو کرنی ہے ، علماء ہی قیادت کے مستحق ہیں ، کیونکہ وہ علم دین سے آراستہ ہیں ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا علم بھی صحیح ہو ، اور آپ کا عمل بھی سنت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو، تقویٰ ہو ، تواضع اور انکساری ہو ، خدمت کا جذبہ ہو ، آخرت کی فکر ہو ، دنیا کی محبت نہ ہو ، اخلاص اور تقوی سے کام لیا جائے تو پھر ۔ ان شاء اللہ ۔ آپ میر کارواں ہوں گے ، اور اللہ تعالیٰ آپ سے کام لے گا، اپنے آپ کو اس عالمگیر اسلامی انقلاب کے لئے تیار کیجئے ، اور تیاری صرف جذباتیت سے نہیں ہوگی ، علم سے ، عمل سے اور سنت کے اہتمام اور شریعت کی پابندی سے ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔
آخر میں طلباء کے لئے چند ہدایات
میرے پاس قیم صاحبان کی طرف سے یاد داشتوں کی فہرست پہنچ گئی ہے ، تاکہ میں ان کے بارے میں آپ کو ہدایات دوں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ : طلبہ گیس ، پانی ، بجلی کفایت شعاری سے استعمال کریں تاکہ اسراف نہ ہو ، اس کی عادت ڈالیں ۔اپنے غسل خانوں کو صاف رکھیں تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
اور سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ نماز میں سستی نہ کریں ، نماز باجماعت کا اہتمام کریں ، تکبیر اولیٰ کا اہتمام اور صفِ اوّل کی کوشش کریں ، ان باتوں پر عمل ہوگا تو دین مضبوط ہوگا ، دین پروان چڑھے گا ، نماز ہماری بنیاد ہے ۔
سالانہ امتحان قریب ہے ، یکسوئی اور محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کیجئے ، اپنا وقت ضائع نہ کریں ، طالب علم کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ، یہ بڑی پونجی ہے ، اس کی قدر کیجئے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو ہمیشہ کامیاب وکامران رکھے ۔ آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More