>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

دستور وآئین کا وفادارھی پاکستان کا وفادار ھے

خطاب:حضرت مولا نا مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ____________ ذیشان علی صادق آبادی

ذکروفکر

دستور وآئین کا وفادارہی پاکستان کا وفادار ہے

۱۳؍ذوالحجہ ۱۴۳۷ھ (۱۶؍ستمبر ۲۰۱۶ ءکو رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم کاجمعہ کے اجتماع سے خطاب اہم اور ضروری ہدایات پر مشتمل تھا ،یہ خطاب ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا:
بزرگان محترم اور برادران عزیز:۔
اللہ رب العالمین نے ہمیں پے درپے بہت سی خوشیاں عطا فرمائی ہیں شعبان کی نعمتیں عنایت فرمائیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے ذرائع بتلائے ، ثوابوں میں اضافہ کیا، رمضان کی نعمت اور عید الفطر کی خوشیاں نصیب فرمائیں اس کے بعد شوال ، ذی القعدہ اور ذی الحج کے برکتوں والے مہینوں سے نوازا اور اب عید الاضحی بھی ہمیں عطا فرمائی اور قربانی کی بھی توفیق دی ان سب پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے اور اس دفعہ کراچی کے لوگوں نے بھی ذرا سکھ اور چین کا سانس لیا ورنہ تو یہاں دہشت گردوں نے مہاجرین اور غریبوں کے نام پر قبضہ کررکھا تھا اور غریبوں کو لوٹ رہے تھے ۔
بھارت مسلمانوں کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں جو مظالم ڈھا رہا ہے اور وہاں مسلمانوں کی طرف سے جو آزادی کی تحریک چل رہی ہے اس کا بدلہ ’’ را‘‘ نے اور انڈیا نے اپنے ایجنٹ بھیج کر کراچی کے لوگوں سے لیا ہم پر تباہی مسلط کی ، آزادی کا خاتمہ کر ڈالا تھا اور خوشیاں نیست ونابود کر دیں تھیں ہمارے مہاجرین کی تین نسلیں برباد ہوگئیں مہاجرین نے پاکستان بنانے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا اور سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں ان سب با صلاحیت سمجھدار اور ذہین لوگوں کو ان’’را ‘‘ اور انڈیا کے ایجنٹوں نے برباد کر ڈالا کراچی جیسے خوبصورت شہر کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ عرصہ دراز کے بعدیہ عیدالاضحٰی ایسی نصیب ہوئی کہ کراچی کے لوگوں نے امن،چین اور سکھ کا سانس لیا قربانیاں اطمینان سے ہوگئیں ورنہ تو یہ ہوتا تھا کہ یا جانور کی کھال دو یا اپنی کھال دو تمہاری چمڑی اتار دیں گے اگر جانور کی کھال نہ دی جاتی تو جانور کو گولیاں مار دیتے تھے، لوگ مصیبت میں تھے۔
الحمد للہ کراچی کے لوگوں کو آزادی ملی اللھم لک الحمد ولک الشکر اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ہمارے جن ریاستی اداروں اور فوج نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا ان کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو راہِ مستقیم پر رکھے اور آئندہ بھی پورے ملک کی حفاظت کا جو کام ان کے سپرد ہے اس کو دیانت داری اور خوب صورتی کے ساتھ انجام دیتے رہیں ،جو پاکستانی دستور اور آئین کا وفادار ہے وہ پاکستان کا وفادار ہے اور ہمارا بھائی ہے ، ہماری دعائیں ہر ایسے ادارے کے ساتھ ہیںچاہے وہ سیاسی حکام ہوں یا ہمارے فوجی بھائی ہوںجو پاکستانی دستور اور آئین کے وفادار ہیں۔ الحمد للہ ہم نے یہ پاکستان بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے ان شاء اللہ اس کی حفاظت ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب آثار ظاہر ہورہے ہیں اور حالات تبدیل ہورہے ہیں اور ہوں گے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے جو مختلف علاقوں میں باغیوں کے خلاف کارروائیاں اورمقابلہ کررہے ہیں اور ان کی جانیں قربان ہورہی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان دہشت گردوں سے بھی نجات دلائے جو جہا د کے نام پر دہشت گردی کررہے ہیں جہاد کا نام لے کر دشمنوں کے ایجنٹ کے طور پر بے گناہوں کا خون بہارہے ہیں اور جہاد کا ، اسلام کا، مسلمانوں کا اور پاکستان کا نام بدنام کررہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہماری حفاظت فرمائے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم خود ٹھیک ہوجائیں ،ہم ٹھیک ہوجائیں گے تو سب ٹھیک ہوجائیں گے ہمارے اوپر یہ عذاب ہمارے گناہوں کی وجہ سے مسلط تھا ہم آئندہ گناہوں سے بچتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ان عذابوں سے بھی ہماری حفاظت ہوتی رہے گی ، عیدالاضحی پر قربانیاں ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں:
ایک بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو اپنے قرب کا ذریعہ بنایاایک ایک بال کے بدلے نیکی عطا فرمائی اور فرمادیا کہ عید کے دن قربانی سے پسندیدہ کوئی عبادت اللہ کے نزدیک نہیں اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنی مالی وسعت دی ہو کہ وہ قربانی کرسکتا ہو پھر اس نے قربانی نہ کی تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے وہ اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ آکھڑا ہو البتہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی توہر شخص ان کا خیال رکھے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ غیر مسلموں کو بھی گوشت دیا جائے جو غریب اور فقیرہیں اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے ۔ بہت سارے لوگ وہ ہوتے ہیں کہ پورا سال ان کو گوشت نصیب نہیں ہوتا وہ گوشت صرف بقر عید کے دنوں میں ہی کھاتے ہیں ،اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قربانی کی خوشیاں عطا فرمائی ہیں وہیں یہ حکم بھی ہے کہ خود بھی کھاؤ اور غریب لوگوں کو بھی کھلاؤ ’’فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْر‘‘ ( آیت ۲۸: حج )تو جتنا ہوسکے صدقہ خیرات کرنا چاہیے ۔ آج کل فریزر اور ڈیپ فریزر کا بہت رواج چل پڑا ہے جنہوں نے ذخیرہ اندوزی کا سامان کر ڈالا ہے ورنہ پہلے غریبوں کو گوشت زیادہ مل جاتا تھاگوشت رکھنے کی بھی گنجائش ہے شرعاً نا جائز نہیں ہے لیکن یاد رکھیے ان غریبوں کا بھی بڑا حق ہے حدیث مبارک میں ارشاد ہے ’’ انَّمَا تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ‘‘ ’’ تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے تمہارے غریب لوگوں کے ذریعے سے ‘‘تاکہ تم اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرو ، ہم ان کو براہِ راست بھی دے سکتے تھے مگر تمہیں ذریعہ بناکر ان کو پہنچایا تاکہ تمہیں خوشیاں بھی نصیب ہوں اور ثواب بھی ملے لہذا جتنا ہوسکے غریبوں کی مدد کی جائے۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے اللہ پناہ میں رکھے کہ بعض لوگ دکھاوے کے لیے بڑے بڑے قیمتی جانور خریدتے ہیں ، ہار ڈالتے ہیں، فوٹو کھینچواتے ہیں اور تشہیر ہوتی ہے کہ اتنے لاکھ کا جانور ہے، خوب سمجھ لیجئے کہ حدیث شریعت میں ارشاد ہے کہ اللہ کے راستے میں جتنا اچھا اور قیمتی جانور قربان کیاجائے اتنا زیادہ ثواب ہے لیکن ثواب اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو اگر اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ لوگوں کے لیے ہے تو یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور بدترین گناہوں میں سے ایک گناہ ہے لہذا جن لوگوں نے خدانخواستہ ایسا کیاہو وہ توبہ واستغفار کریں اور جن لوگوں نے اللہ کے لیے قربانی کی دکھلاوا مقصود نہیں تھا تو ان کی قربانی اعلیٰ درجے کی ہوئی اور ان شاء اللہ قبول ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
تو دو باتیں ہوگئیں ایک یہ کہ اپنے غریب بھائیوں کا خیال رکھنا اور دوسری یہ کہ جنہوں نے دکھلاوے کے لیے یہ کام کیا وہ توبہ واستغفار کریں انہوں نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہے کیا ہاں اگر آدمی نے جانور خریدا اور لوگوں نے آکر دیکھ لیا ارادہ اور نیت دکھلاوے کی نہیں تھی تویہ ایک الگ بات ہے اس پر گناہ نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ جانور کی آلائشیں ٹھکانے لگانا اور ماحول کوصاف ستھرا رکھنا یہ ہماری اور تمام معاشرے کی ذمہ داری ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ صرف بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے اور بلدیاتی ادارے یہ نہ سمجھیں کہ یہ قربانی کرنے والوں کی ذمہ داری ہے قربانی کرنے والوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس جگہ انہوں نے قربانی کی ہے اس کو صاف سھترا رکھیں ، دھلوائیں ، کسی قسم کی گندگی نہ چھوڑیں اور وہاں سے آلائشیں اٹھاکر اس جگہ پہنچادیں جو جگہ بلدیاتی اداروں نے مختص کر رکھی ہے اور پھر وہاں سے ٹھکانے لگانا یہ بلدیہ کا کام ہے کہ وہ اٹھائیں اور ٹھکانے لگائیں ، جو لوگ اس میں کوتاہی کریں گے وہ گناہ گار ہوں گے خاص طور پر یہ بلدیاتی ادارے جو بڑی بڑی تنخوائیں ہی اسی کام کی لیتے ہیں اوران کو تمام ساز وسامان بھی ملا ہوا ہے پھر بھی یہ اگر نہیں کرتے تو یہ پرلے درجے کی حرام خوری ہے اور وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ اچھا سودا نہیں کررہے ہیں اس کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ ہمارا تجربہ ومشاہدہ ہے کہ جو حرام کھانے کا عادی ہوجاتاہے دنیا میں ہی اس کو عذاب آتا ہے کبھی بیماریاں، کبھی مقدمہ بازیاں، کبھی حادثات، کبھی اموات اور کبھی آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں گے، چین ، سکون اور راحت اس کو نصیب نہیں ہوگی ، آپ اپنے ملک میں دیکھ لیجئے کتنے بڑے بڑے مشہور لوگ جلا وطنی کی زندگی گزاررہے ہیں اور وطن کی راحت سے محروم ہیں کیا کمایا ان لوگوں نے؟ کڑوروں ،اربوں کمانے کے بعد راحت کا سانس ان کو میسر نہیں تو بھئی حرام خوری کرنے والے توبہ واستغفار کریں جو لوگ اپنی ڈیوٹی پوری انجام نہیں دیتے اور اس میں خلل ڈالتے ہیں اگر آٹھ گھنٹوں کی ڈیوٹی میں سے ایک گھنٹہ بھی چوری کرتے ہیں تو اس ایک گھنٹہ کی تنخواہ ان کے لیے ایسے ہی حرام ہے جیسے سور کا گوشت حرام ہے لیکن ہمارے سرکاری اداروں میں یہ عادت پڑی ہوئی ہے کہ تنخواہیں پوری لو اور کام نہ کرو ۔ رشوت ستانی کا دور دورہ ہے جبھی تو طرح طرح کے عذاب بیماریوں اور طوفانوں کی صورت میں ہم پر آتے رہتے ہیں تو اس کا اہتمام کریں اور اپنی جگہوں کو خود صاف کریں اور گندگی نہ پھیلائیں اور پھر اگر بیماریاں پھیلیں گی تو ذمہ داری ان تمام افراد پر آئے گی جنہوں نے صفائی کے کام میں کوتاہی برتی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ نَظِّفُوْا اَفْنِیَتَکُمْ وَلَا تَتَشَبَّھُوْا بِالْیَھُوْدِ‘‘ کہ اپنے گھروں کے ارد گرد کو صاف ستھرا رکھو اور یہود کی مشابہت اختیار مت کرو ، اس زمانے میںیہود کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے گھر کا آڑ کباڑ نکال کر باہر پھینک دیتے تھے جس سے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچتی تھی اس کی اجازت نہیں ہے۔
میں نے جو ابھی حدیث سنائی تھی کہ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں سب سے افضل شعبہ’’ شہادۃ ان لا الہ الا اللّہ ‘‘ ہے اور ادنیٰ شعبہ ’’اماطۃ الاذی عن الطریق ‘‘ہے اور شعبہ ہر نیکی کو نہیں کہتے بلکہ جو خاص خاص نیکیاں ہیں ان کو شعب الایمان کہاگیا ہے ان میں سے ایک ’’ اماطۃ الاذی عن الطریق ‘‘ ہے۔ ایک شخص کی بخشش صرف اس بناء پر ہوگئی کہ راستے میں درخت کی ایک کانٹے دار شاخ لٹکی ہوئی تھی جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی اس نے وہ شاخ کاٹ دی اس عمل پر اس شخص کی مغفرت ہوگئی ۔
مسلمان کا کام گندگی پھیلانا نہیں بلکہ اگر کسی نے پھیلادی ہے تو اس کو صاف کرنا ہے اور یہ ایمان کے شعبوں میںسے ایک شعبہ ہے اس کا اہتمام کرنا چاہیے ایک عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ وہ صفائی کے کام کو دین کا کام نہیں سمجھتے ، حضرت تھانوی ؒ نے ایک لطیفہ لکھا ہے کہ ضلع مظفرنگر کے ایک قصبہ میں ایک انگریز افسر تھا اللہ نے اس کے دل میں ایمان ڈالا وہ مشرف با سلام ہوگیا اور مسجد میں آنے لگا اس نے دیکھا کہ وضوخانے کی نالیوں میں گندگی پھنسی ہوئی ہے تو وہ چھٹی والے دن1 1 ،12 بجے کے قریب جب کوئی مسجد میں نہیں ہوتا صفائی کا سامان لایا اورجمی ہوئی کائی کو دور کرنے لگا اتنے میں ایک بڑے میاں آگئے انہوں نے دیکھا کہ یہ صفائی کررہا ہے تو کہنے لگے کہ” میاں انگریز تم مسلمان تو ہو گئے مگر تمہارے دماغ سے انگریزیت ابھی تک نہیں نکلی ،وہ بڑے میاں سمجھتے تھے کہ شاید گندگی پھیلانا مسلمانوں کا کام ہے اور صاف کرنا انگریزوں کا کام ہے ،یہ پرلے درجے کی جہالت اور گمراہی ہے ۔ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہیے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانا چاہا تھا آپ ایسے مسلمان ہوں گے تو لوگ آپ کو دیکھ دیکھ کر مشرف باسلام ہوں گے۔
آج کے اخبار میں آپ نے پڑھا ہوگا سعودی عرب میں برطانوی سفیر اور ان کی بیوی مشرف با سلام ہوگئے اور اس مرتبہ انہوں نے حج کیا وہاں مسلمانوں اور ان کے ماحول کو دیکھ کر وہ متأثر ہوئے اللہ نے ان کے دل میں ایمان ڈال دیا اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیے تو مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہیے مسلمان گندگی پھیلانے والا نہیں ہوتا بلکہ اس کو دور کرنے والا ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گندگی سے سخت نفرت تھی اتنی نفرت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مسجد میں آئے تو کچا لہسن اور پیاز کھا کر نہ آئے اس سے نمازیوں کو اور فرشتوں کو جو نماز میں آتے ہیں تکلیف پہنچے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار مسواک فرماتے تھے اور اس کی تاکید فرماتے تھے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں کسی نے تھوک دیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوار پر نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت کراہت محسوس ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی سے اس کو صاف کیا اور خوشبو منگوا کر دیوار کی اس جگہ پر لگوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر کبھی دھبے نہیںدیکھے گئے پیوند تو دیکھے گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑوں کو خود دھولیتے تھے دوسروں سے خدمت نہیںکرواتے تھے۔
ہمیں مسلمان ہونا ہے، ہم تاجدارِ دو عالم ، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے محتاج ہیں ، ان کی شفاعت کے بغیر کسی کی بھی بخشش نہیںہے ، ہم ان کی سنتوں کو جتنا اپنائیں گے ہمیں اتنی ہی دین ودنیا کی برکتیں نصیب ہوں گی اللہ تبارک وتعالیٰ ا س کی توفیق عطا فرمائے ۔( واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین)
٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More