>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(محرم الحرام1437ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی

آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)

سوال : ہمارے مدرسہ کے خزانچی ایک قابل اعتماد اور امانتدار آدمی ہیں مدرسہ کی انتظامیہ کوان پر مکمل اعتماد ہے ، اور وہ یہ خدمت تقریباً ۱۳؍سا ل سے بلامعاوضہ انجام دے رہے ہیں ، وہ ہر ماہ مدرسہ کے مالی معاملات کا حساب کرتے ہیں اس سال شعبان اور رمضان کا حساب مصروفیات کی وجہ سے ایک ساتھ کیا تو انتالیس ہزارروپے کم ہوگئے، ممکن ہے کہ یہ رقم مدرسہ کے استعمال میں آئی ہواور خزانچی لکھنا بھول گئے ہوں حالانکہ تقریباً ۱۳؍سال سے ہرماہ وہ حساب کرتے ہیں کبھی بھی اس طرح کا معاملہ نہیں ہوا، حساب بھی ہرطرح سے چیک کرکے دیکھ لیا یہ فرق ختم نہیں ہورہا ہے جبکہ مدرسہ کی انتظامیہ کوخزانچی پر بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ رقم انہیں معاف کردے حالانکہ وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ یہ رقم مدرسہ کو جب بھی ہوسکا اداکردیں گے ازراہِ کرم اس معاملہ میں شریعت کا جو بھی حکم ہو بتاکر ممنون فرمائیں۔
جواب: اس صورت میں اگر یہ شخص قابل اعتماد ہے اور مدرسہ کی انتظامیہ کو مکمل اعتماد ہے کہ یہ رقم اس نے مدرسہ ہی کے مصارف میں خرچ کی ہے البتہ اس سے حساب میں بھول چوک ہوگئی ہے اور خود اس آدمی کا بھی یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مدرسہ کی رقم علیحدہ رکھتا تھا اس کو اپنی رقم کے ساتھ خلط نہیں کرتا تھا اور اس کو خود بھی یقین یاغالب گمان ہے کہ اس نے یہ رقم اپنے ذاتی استعمال میں صرف نہیں کی ہوگی بلکہ مدرسہ ہی کے متعلقہ مصارف میں خرچ کی ہوگی تو اس پر اس رقم کا ضمان لازم نہیں ۔تاہم اگر مدرسہ کا خزانچی یہ رقم آہستہ آہستہ کرکے مدرسہ میں جمع کرادے تو یہ احتیاط کے زیادہ قریب ہے اس سے آئندہ کے لئے کسی کو شبہ پیدا نہیں ہوگااور طعنہ زنی کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
آئندہ کے لئے خزانچی کو چاہئے کہ حساب کتا ب میں تاخیر نہ کرے بلکہ ساتھ ساتھ حساب درج کرتارہے تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سوال : میرا بیٹا اکبر خان ولد غلام اکبر ، تقریباً ۴؍سالوں سے ذہنی مریض ہے اور گذشتہ پندرہ مہینوں سے تقریباً پاگل ہے ، اور ایسی حرکتیں کرتارہتا ہے جوکہ نامناسب ہیں اور گذشتہ ۱۵؍مہینوں سے نہ تو کوئی کام وغیرہ کرنے کے قابل ہے اور نہ کیا ہے ، ایک ہفتہ پہلے بیوی کے بھائی سے جھگڑا ہوا، اسی دوران بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا میں نے تو اسی کو طلاق دی ہے ، دی ہے ، دی ہے ۔
تھوڑی دیر بعد کہنے لگا ، میں نے تو کچھ نہیں کہا، جناب! کیا طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟
جواب: اس صورت میں اگر یہ شخص واقعۃً اس حدتک مجنون ہے کہ اس کو اچھے برے کی تمیز نہیں ہے یا اس واقعہ کے وقت اس پرایسی کیفیت طاری تھی کہ اس کو کوئی ہوش نہ تھا اور اس واقعہ کے بعد واقعۃً اس کو یہ بات یاد نہیں تھی کہ اس نے کوئی طلاق دی ہے تو سوال میں ذکرکردہ الفاظ "میں نے تو اسی کو طلاق دی ہے ، دی ہے ، دی ہے "سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اور اگر وہ اس حدتک مجنون نہیں تھا تو مذکورہ الفاظ سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے بشرطیکہ اس سے پہلے اس نے ہوش وحواس میں زبانی یا تحریری طورپر کوئی اور طلاق نہ دی ہو۔نیز دوسری اور تیسری مرتبہ دی ہے ، دی ہے کہنے سے اس کی نیت مزید طلاق دینے کی نہ ہو۔اس صورت میں اس کو عدت کے اندر اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ، اور عدت کے بعد بھی وہ دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا اگر کبھی وہ دوطلاقیں بھی دے دیں تو حرمت مغلظہ ثابت ہوجائے گی اس لئے طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔
سوال : کیا دوران طواف بات چیت کرسکتے ہیں ؟ بعض لوگ دوران طواف ، موبائل پر بات چیت کرتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟
جواب: صرف بقدر ضرورت بات چیت کرسکتے ہیں ، اور موبائل پر بھی ضرورت کے مطابق صرف بہت ضروری بات چیت کرنے کی گنجائش ہے ۔
سوال : طواف کے چکروں میں وقفہ کرنا کیسا ہے ؟ یعنی مثلاً دوچکر لگائے پھر بیٹھ گئے یا کچھ کھا پی لیایا کسی ضرورت سے باہر چلے گئے اور پھر کچھ وقت کے بعد کسی اور وقت آکر وہ طواف مکمل کرلیا۔یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اصل یہ ہے کہ طواف میں موالات یعنی پے درپے چکّر لگائے جائیں اور بغیر کسی عُذر کے وقفہ کرنا جائز نہیں ۔تاہم اگر کوئی ضرورت ہو مثلاً بیماری یا شدید تھکاوٹ یاکسی تکلیف کی بناء پر کچھ بیٹھ گئے یا کچھ کھاپی لیا یا کسی ضرورت مثلاً قضاء حاجت وغیرہ کے لئے باہر چلے گئے تو اس کی گنجائش ہے مگر ایسی صورت میں وہ ضرورت پوری کرکے فوراً اپنا طواف آکر مکمل کرنا چاہیے۔
سوال : حجر اسود کا بوسہ لینے کے وقت ، بعض لوگ ، رش اور بھیڑ میں آگے بڑھنے کے لئے دھکم پیل کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ مزاحمت کرتے ہیں کیا حجر اسود کا بوسہ لینے کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟نیز کیا عورتوں کے لئے بھی حجر اسود کا بوسہ یا استلام ہے ۔یعنی ان کو بھی شریعت میں حجر اسود کے بوسے اور استلام کی ترغیب دی گئی ہے ۔
جواب: حجر اسود کا
بوسہ بڑی سعادت ہے ۔تاہم فقہی اعتبار سے بوسہ لینا سنت ہے ۔اور کسی کو تکلیف دیناناجائز اور گناہ ہے ۔ لہٰذا بوسہ لینے کے لئے دھکم پیل ، یامزاحمت کرنا اور کسی کو تکلیف پہنچانے سے احتراز کرنا لازم ہے ۔
اور عورتوں کے لئے بھی حجر اسود کا بوسہ مشروع ہے ۔ لیکن انہیں چاہیئے کہ وہ کسی ایسے وقت میں اس کام کے لئے جائیں جس وقت رش کم ہو اور مردوں کے درمیان گُھسنے ، تکلیف دینے اور دھکم پیل سے مکمل احتراز کی حتی الامکان کوشش کریں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More