>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(ذوالحجہ 1436ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : حرمین میں بے شمار لوگ سحری وافطاری کرتے ہیں اور کافی سارے لوگ حرمین میں دن میں سوتے بھی ہیں ، کیا یہ جائز ہے ؟اگرناجائز ہوتو کیا اعتکاف کی نیت سے یہ کام کرلینا یعنی افطاری ، اور آرام کرنا وغیرہ جائز ہوں گے یا نہیں ؟
جواب: مسجد حرام اور مسجد نبوی کے باہر کا جو حصہ ، حدود مسجد میں شامل نہیں ، ان میں سحری ، افطاری وغیرہ کرنا جائز ہے ،اور مسجد کے اندر مسافرین اور معتکفین کے لئے سحری ، افطاری اور آرام کرنے کی گنجائش ہے ۔
تاہم غیر مسافراور غیر معتکف کے لئے بغیرنیت اعتکاف کے یہ افعال کرنا درست نہیں ۔ لیکن اگراعتکاف کی نیت کرکے سحری افطاری کرے تو اس کی گنجائش ہے ۔مگر مسجد کا ادب اور اسے زیادہ ملوّث ہونے سے بچانے کا خیال رکھنا بہرصورت لازم ہے۔
سوال : حرمین میں اعتکاف کا کیا طریقہ ہے ؟کیااعتکاف کے دوران پورے حرم مکی میں جہاں کہیں چاہیں پھرسکتے ہیں یا کوئی جگہ مخصوص کرنا ضروری ہے ؟ نیز نابالغ اور عورت بھی حرمین میں اعتکاف کرسکتے ہیں؟
جواب: حرمین میں اعتکاف کے دوران جہاں تک مسجد کی حدود ہیں وہاں تک معتکف چل پھرسکتا ہے ۔ اور حرمِ مکی شریف میں اندر کا مکمل حصہ اوپر نیچے مسجد کی حدود میں شامل ہے جس میںمعتکف جہاں رہنا یا جانا چاہے جاسکتا ہے معتکف کے لئے مسجد کے اندرکسی ایک جگہ کو مخصوص کرلینا ضروری نہیں۔
تاہم حرمِ مکی شریف میں باہر کا سفید سنگ مرمروالے فرش کا حصہ چونکہ مسجد کا حصہ نہیں لہٰذا وہاں معتکف کے لئے بغیر کسی طبعی وشرعی ضرورت کے جانا جائز نہیں ۔ اسی طرح مسعیٰ یعنی سعی کی جگہ مسجدِ حرام کا حصہ نہیں بلکہ اس سے خارج ہے وہاں بلاضرورت دورانِ اعتکاف جانا جائز نہیں ۔اور نابالغ ، اگر سمجھدار اور عاقل ہو، اور مسجد کے آداب وغیرہ کو سمجھتا ہوتو وہ عام مساجد اور حرمین شریفین میں بھی اعتکاف میںبیٹھ سکتا ہے ۔تاہم عورت کے لئے مسجد اور حرمین میں اعتکاف کرنا مکروہ تنزیہی ہے ، عورت اپنے گھر کی مسجد (گھرمیں نماز کے لئے مخصوص کی گئی جگہ یا ایسی جگہ نہ ہونے کی صورت میں گھر میں ہی کوئی جگہ مخصوص کرکے اس )میں ہی اعتکاف کرے۔
سوال : دوران طواف خانہ کعبہ کو دیکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اور دوران طواف سینہ کعبہ کی طرف رہنے میں شرعاً کوئی حرج ہے ؟
جواب: طواف کے دوران چہرہ یا نگاہ خانہ کعبہ کی طرف کرنا خلاف ادب ہے ۔اس میں اصل حُکم اور ادب یہ ہے کہ طوا ف کرنے والا دوران طواف اپنی نظر چلنے کی جگہ رکھے تاکہ ادھر اُدھر دھیان نہ بٹے اور یکسوئی سے طواف اداہوجائے۔
اور دورانِ طواف حجر اسود اور رکنِ یمانی کے علاوہ خانہ کعبہ کی طرف سینہ یا پیٹھ کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے ، اور طواف کا کچھ حصہ بھی اگر اس طرح اداکیا کہ سینہ یا پشت خانہ کعبہ کی طرف رہی تو اتنے حصہ کے طواف کا اعادہ کرنا لازم ہے ۔
چنانچہ حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا طریقہ بھی حضرات فقہاء کرام نے یہ لکھا ہے کہ استلام کے وقت جب بیت اللہ کی طرف منہ کرے تو اپنے دونوں قدم اپنی جگہ قائم رکھنے چاہئییں ، اور جب استلام سے فارغ ہوجائے تو چلنے سے پہلے یعنی کھڑا ہونے کی حالت میں اپنے دائیں طرف گھوم جائے ، اور بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب کرلے اور اسی حالت پر ہوجائے جس پر طواف کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف منہ کرنے سے پہلے تھا تاکہ طواف کا کچھ حصہ بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کی حالت میں طے نہ ہو۔
لہٰذا دورانِ طواف حجر اسود اور رکنِ یمانی کے استلام کے علاوہ سینہ یاپشت بیت اللہ کی طرف رکھنے سے احتراز کرنا لازم ہے ۔
سوال : کئی لوگ رکن یمانی پر پہنچ کر بوسہ یا استلام کرتے ہیں یعنی طواف کرنے والے وہاں رکن یمانی کے قریب سے گذرتے ہوئے اس کو نے کو ہاتھ لگاتے جاتے ہیں اور دورسے گذرنے والے صرف ہاتھ کے اشارے سے استلام کرتے جاتے ہیں اس طرح رکن یمانی کا بوسہ یا استلام شرعاً ثابت ہے یا نہیں ؟اگرہے تو اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں کہ یہ واجب ہے ، سنت ہے یامستحب؟
جواب: رکنِ یمانی کا استلام ہے تقبیل یعنی بوسہ نہیں ہے لہٰذا دورانِ طواف رکن یمانی سے گذرتے ہوئے اگرکسی کو استلام یعنی رکنِ یمانی کو دونوں ہاتھ سے یا داہنے ہاتھ سے چُھونے کا موقع مل جائے تو استلام کرنا چاہیئے ، اور یہ استلام مستحب ہے ۔
اوراگر اس کا موقع نہ ملے تو اشارہ کرنا درست نہیں ۔ مکروہ ہے اس لئے بوسہ دینے یا استلام کا موقع نہ ملنے کی صورت میں اشارہ کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے۔
سوال : بلاعذر ڈولی پر طواف کرنے کا کیا حکم ہے ؟یعنی بعض لوگ تو کسی مجبوری اور عذر کی وجہ سے پیسے دے کر ڈولی پر طواف کرتے ہیں ۔اور بعض لوگ سہولت کی خاطر بغیر کسی خاص عذر پیسے دے کر ڈولی پر طواف کرتے ہیں ، یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: عُذر کی بناء پر تو سوار ہوکر یا ڈولی وغیرہ میں بیٹھ کر طواف کرنا جائز ہے ، لیکن بلا عُذر سوار ہوکر طواف کرنا جائز نہیں ، اور بغیر عُذر کے سوار ہوکر طواف کرنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ اگر اعادہ کرلیا تو دَم وغیرہ کچھ واجب نہ ہوگا۔
اور اگر اعادہ نہ کیا تو عُمرہ کا طواف کرنے کی صورت میں ایک چکر بھی بلا عُذر سوار ہوکر کرلیا تو دَم واجب ہوگا۔
اور طوافِ صدر ، طوافِ قدوم یا نفل ہونے کی صورت میں دم اکثر یعنی چاریااس سے زائد چکر بلاعذر سوار ہوکر کرنے کی صورت میں واجب ہوگا،اور اقل چکر یعنی تین یا اس سے کم چکر بلا عُذر سوار ہوکر کرلئے تو اس صورت میں ہرچکر کے بدلے صدقہ دینا واجب ہوگا۔
٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More