>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(ذوالقعدہ 1436ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : دیگر مساجد میں جنازہ کی نماز پڑھنے کو ناجائز کہا جاتا ہے ۔ حرمین میں جو جنازہ کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب: اس سلسلے میں اصل شرعی حکم یہ ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا بلاکسی عُذر کے مکروہ ہے ۔ خواہ اس کی کوئی بھی صورت اختیار کی جائے البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً مسجد سے باہر کوئی میدان یا جنازہ گاہ نہ ہویا جگہ تو ہو لیکن اتنی تنگ ہو کہ وہاں نمازِجنازہ پڑھنے کی صورت میں کچھ صفیں مسجد کے اندر بھی بنانی پڑتی ہوں، یا باہر شارع عام ہو اور وہاں جنازہ پڑھنے سے آنے جانے والوں کا راستہ رک جاتا ہوتو ان تمام صورتوں میں عُذر کی وجہ سے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا بلاکراہت جائز ہے ۔
اور عُذر کی وجہ سے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ جنازہ ، امام اور چند مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور باقی نمازی مسجد کے اندر ہوں اور مسجد نبوی میں یہی صورت اختیار کی جاتی ہے لہٰذا ان اعذار کی بناء پر وہاں اس طرح نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے ۔
اور مسجد ِ حرام میں اگرچہ میت اندر لائی جاتی ہے لیکن وہاں چونکہ مذکورہ بالااعذار پائے جاتے ہیں،اور سب لوگوں کا باہر نکل کرجنازہ پڑھنا تقریباً ناممکن ہے اور عُذر کی بناء پر فقہاء نے مسجد کے اندر نمازجنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے لہٰذا حرمِ مکی شریف میں اس طرح نمازجنازہ پڑھنے کی گنجائش ہے ۔
تاہم بغیر کسی عُذر کے دوسرے مقامات کو حرمین شریفین پرقیاس کرنا درست نہیں ۔
سوال : حرمین شریفین میں نمازی کے آگے سے گذرنے کا کیا حکم ہے ؟ وہاں تقریباًناممکن ہے کہ آدمی نمازی کے آگے سے نہ گذرے۔
جواب: مسجد نبوی اور مسجد حرام نیز بڑی مساجد میں نمازی کے سامنے سے بغیر سترہ کے گذرنا جائز ہے لیکن کتنے فاصلہ سے گذرنا چاہیئے ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں ، راجح یہ ہے کہ اگرنمازی کے سامنے کوئی سترہ نہ ہوتو اس کے آگے اتنے فاصلہ سے گذرے کہ نمازی کی نگاہ اپنے سجدہ کی جگہ کو دیکھتے ہوئے گذرنے والے پر نہ پڑے، تجربہ سے ثابت ہے کہ قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ کو دیکھتے ہوئے نمازی کی نگاہ عموماً دوصف سے متجاوز نہیں ہوتی ، لہٰذا نمازی کے سجدہ کی جگہ سے دوصف آگے سے گذرنا جائز ہے۔
اسی طرح اگرکعبہ شریف سامنے ہوتو جو لوگ طواف نہیں کررہے ہیں ان کے لئے بھی نمازی کے سامنے سے گذرنے کی گنجائش ہے ، لیکن جہاں کعبہ شریف سامنے نہ ہووہاں پر نمازی کے سامنے سے گذرنے کا عام حالت میں وہی حکم ہے جو اوپر بڑی مساجد کے بارے میں لکھا گیا ہے ، لہٰذا حتی الامکان نمازی کے سامنے سے گذرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
تاہم اگر مجبوری ہواور بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہوتو اس حالت میں نمازی کے سامنے سے گذرنے کی گنجائش ہے ، اگر چہ نمازی اور جائے سجدہ کے درمیان سے کیوں نہ ہواور خواہ کعبہ کے سامنے ہو یا نہ ہو دفعاً للحرج ۔
سوال : حرمین شریفین کے اطراف میں باہر کا صحن ، مسجد کی حدود میں شامل ہے یا نہیں؟ اگر مسجد کی حدود میں ہے تو اس صحن میں خرید وفروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مسجد حرام اور مسجد نبوی کے اطراف میں باہر کی طرف جو سفید سنگ مرمر کا صحن بناہوا ہے وہ فنائِ مسجد کے حُکم میں ہے ،لہٰذا نماز کے لئے وہاں صفیں بنانا درست ہے ۔ لیکن دیگر احکا م میں وہ مسجد کی طرح نہیں ہے ۔ اس لئے وہاں خرید وفروخت جائز ہے ۔
سوال : حرمین شریفین میںامام کی اقتداء میں عیدین کی نماز کا کیا حکم ہے وہ حضرات چونکہ حنبلی مسلک کے مقلد ہیں ، لیکن ہمارے حنفی بھائیوں کے لئے کیا طریقہ ٔ کار ہوگا؟
جواب: حرمین شریفین کے ائمہ کی اقتداء میں نماز عید پڑھنا درست ہے حنفی مقتدی ، زائد تکبیرات میں بھی وہاں کے حنبلی امام کی اتباع کریں۔
سوال : ختم قرآن کے موقع پر بیس رکعات پوری ہونے پر دعاء ختم القرآن نماز ہی میں ہوتی ہے۔اس میں ہاتھ اٹھانے چاھیّیں یا نہیں ؟ نیز ختم قرآن کی دعاء نماز ہی میں شرعاً ثابت ہے یا نہیں؟
جواب: نماز ہی میں دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا جائز نہیں، نہ ثابت ہے لہٰذا اس سے احتراز کرنا لازم ہے ۔
سوال : نماز جمعہ کے خطبہ میں جب دوسرے خطبے میں امام صاحب دعا کرتے ہیں تو اکثر لوگ حالتِ خطبہ میں ہی ہاتھ اٹھالیتے ہیں اس موقع پر ہاتھ اٹھانا شرعاً ثابت ہے ؟
جواب: خطبے میںجب امام صاحب ، دعاء شروع کریں تو اس وقت حالت خطبہ میں لوگوں کے لئے ہاتھ اٹھانا اور زبان سے آمین کہنا جائز نہیں لہٰذا اس سے احتراز کیا جائے ۔
سوال : حرم نبوی میں کئی لوگوں سے سنا ہے کہ ، مسجد نبوی شریف کی چھت پر نماز پڑھنا خلاف ادب ہے ، کیا یہ درست ہے ؟
جواب: شرعاً مسجد نبوی شریف کی چھت پر نماز پڑھنے کے عدم جواز یا خلاف ِ ادب ہونے پر کوئی دلیلِ شرعی نہیں ہے ۔ لہٰذا مسجد نبوی کی چھت پر بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔
تاہم اگر کوئی اپنے ذوق کی بناء پر روضۂ مبارک کے قریب والے حصے میں چھت پر نماز نہ پڑھے تو یہ بھی درست ہے ۔
سوال : عورتوں کے لئے حرمین شریفین میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ اگرگھر میں پڑھنا افضل ہے تو عورتیں اگر نہ مانیں تو کیا کیا جائے ؟
جواب: حرمین شریفین میں بھی خواتین کے لئے اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنا افضل ہے ۔اور انہیں حکمت وموعظۂ حسنہ کے ساتھ یہ بات سمجھانی چاہیئے ۔ تاہم اگروہ نماز کے وقت مسجد میں خواتین کی مقررہ جگہ پر ہوں اور جماعت شروع ہوجائے تو جماعت کے ساتھ شریک ہونا درست ہے ، بلکہ ایسی صورت میں مسجد کی جماعت میں ہی شریک ہوناچاہیئے۔
٭٭٭
سوال : حرم شریف میں حج کے دوران مرد اور مستورات مخلوط نمازیں اداکرتے ہیں بعض اوقات بڑی کوشش کرکے ایسی جگہ کھڑے ہونے کی کوشش کی گئی کہ کوئی مستورہ نہ ہو تو دوران نماز مستورہ کے برابر میں آکر کھڑی ہوگئی تو مسئلہ محاذات میں اس مودوہ صورت کے پیش نظر کچھ گنجائش ہوگی یا جو مسائل کتابوں میں درج ہیں انہیں پر عمل کرنا ہوگا ۔
جواب: اگر حرمین شریفین کے امام عورتوں کی امامت کی نیت کرتے ہوں اور جماعت کے وقت کوئی عورت آکر کسی مرد مقتدی کے محاذات (برابر) میں کھڑی ہوتو اس کی دوصورتیں ہیں
(۱) جماعت شروع نہ ہوئی ہو
(۲) جماعت شروع ہوگئی ہو
اگر جماعت شروع نہ ہوئی ہو تو درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرلی جائے تو مرد کی نماز درست ہوجائے گی ۔
(۱) مرد اور عورت کے درمیان ایک شخص کے کھڑے ہونے کی جگہ خالی ہو۔
(۲) یا عورت اور مرد کے درمیان کم ازکم ایک ہاتھ لمبا اور ایک انگلی کے برابر موٹاکوئی سترا یا کوئی اور آڑ جو سترا کے قائم مقام ہو، رکھ لی جائے ۔
(۳) یا مرد اس ہیئت پر کھڑا ہو کہ عورت کی پنڈلی اور ٹخنہ اور عورت کا پورا پاؤں مرد کے پاؤں سے پیچھے ہو یا کم ازکم اس ہیئت پر مرد کھڑا ہوکہ عورت مرد سے اتنی پیچھے رہ جائے کہ دونوں کے ٹخنے اور پنڈلی بالکل سیدھ میں نہ رہیں ،خواہ عورت کے پاؤں کا کوئی حصہ مرد کے پاؤں کے کسی حصہ کی سیدھ میں ہو (اصح قول کی بنا پر یہ صورت بھی مفسد نہیں ہے )
ان تمام صورتوں میں برابر میں کھڑے ہوئے مرد کی نماز درست ہوگی اور عورت کی نماز بھی اگر چہ درست ہوجائے گی لیکن مردوں کی صفوں میں ، ان کے منع کرنے کے باوجود داخل ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوگی ، اور عورت کے پیچھے کھڑے ہونے والے کی نماز تب صحیح ہوگی کہ اس مرد اور عورت کے درمیان کوئی حائل ہو مثلاً تختہ ، یا ستون وغیرہ ایسا موجود ہو جو کم از کم ایک ہاتھ اونچا ہو ، یا مرد عورت کے سرسے زیادہ بلندی پر کھڑا ہو (دیکھئے حوالہ نمبر ۱)
ان تدابیر میں سے کوئی بھی تدبیر اختیار نہ کی گئی اور عورت ، نماز میں شریک ہوگئی تو اس مرد کی نماز تو فاسد ہوجائے گی ، نیز کچھ اور مردوں کی نماز بھی فاسد ہوگی جس کی تفصیل آگے آئے گی ۔
اگر دوسری صورت ہو یعنی جماعت شروع ہوگئی اور عورت آکر اقتداء کرلے تو مرد مقتدی پر لازم ہے کہ وہ عورت کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرے ، اگر اشارہ کے باوجود عورت پیچھے نہ ہٹے تو اس صورت میں بھی مرد کی نماز ہوجائے گی ، لیکن اگر مردمقتدی اشارہ نہ کرے بلکہ اشارہ کرنے کے بجائے خود اتنا آگے بڑھ جائے کہ اس کی ایڑی عورت کے قدموں سے آگے ہوجائے ، تو اس صورت میں مرد کی نماز فاسد تو نہ ہوگی لیکن صف سے آگے بڑھنے کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔
(واضح رہے کہ اشارہ کرنے یا ایڑی آگے کرنے میں جو معمولی وقت لگے گا اس قدر محاذات سے نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ محاذات سے نماز فاسد ہونے میں شرط یہ ہے کہ ایک رکن کی مقدار محاذات رہے اس سے کم وقت کی محاذات سے نماز فاسد نہیں ہوگی)
اگر نہ اشارہ کیا نہ اس عورت سے اس قدر آگے بڑھا تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، نیز کچھ اور مردوں کی نماز بھی فاسد ہوگی جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اوپر جن دوصورتوں میں ہم نے لکھا ہے کہ مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ان دونوں صورتوں میں مزید کچھ اور مردوں کی نماز بھی فاسد ہوگی جس کی تفصیل یہ ہے ۔
(۱)عورت ایک ہونے کی صورت میں اس عورت کے دائیں بائیں کھڑے ہوئے ایک ایک مرد اور پچھلی پہلی صف میں اس کی سیدھ میں کھڑے ہوئے ایک مرد کی نماز فاسد ہوگی ۔
(۲) دوعورتیں ہونے کی صورت میں دائیں بائیں والے ایک ایک مرد کی اور پچھلی پہلی صف میں ان کی سیدھ میں کھڑے ہوئے دومردوں کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔
(۳) اگر عورتیں تین ہوں تو ان کے دائیں بائیں ایک ایک مرد اور ان کے پیچھے تین مردوں کی نماز فاسد ہوجائے گی ، اور اس صورت میں مزید خرابی یہ ہوگی کہ ان تین عورتوں کے پیچھے آخری صف تک ہر صف میں سے ان تین تین مردوں کی نماز فاسد ہوجائے گی جو ان کی سیدھ میں کھڑے ہوں ۔
نیز اسی پر تین سے زائد عورتوں کے حکم کو قیاس کرلیا جائے کہ ان کے دائیں بائیں ایک ایک مرد کی اور وہ جتنی عورتیں ہیں ان کے پیچھے کی ہر صف میں سے آخری صف تک اتنے ہی ایسے مردوں کی نماز فاسد ہوجائے گی جو ان کی سید ھ میں ہوں گے ۔
تاہم اگرعورتوں کی صف کے پیچھے مردوں کی صف اول ان عورتوں کے سر سے زیادہ بلند مقام پر ہو یا عورتوں کی صف کے پیچھے مردوں کی صف اول کے سامنے ایک ہاتھ اونچاکوئی حائل ہو تو اس حائل کی صورت میں مردوں کی نماز صحیح ہونے کے بارے میں اختلاف ہے، بعض فقہاء کرام کے نزدیک مردوں کی نماز ہوجائے گی اور بعض کے نزدیک نہیں ہوگی، اور بعض علماء نے صحت کے قول کو ترجیح دی ہے ، البتہ اس میں شرط یہ ہے کہ یہ حائل عورتوں کی صف کے پیچھے مردوں کی پہلی صف کے آگے ہو، اگر مردوں کی پہلی صف کے سامنے کوئی حائل نہیں ، بلکہ دوسری یا تیسری صف کے سامنے ہے تو عورتوں کے پیچھے موجود مردوں کی کسی صف کی بھی نماز نہیں ہوگی ۔
جبکہ حضرت امام شافعی ، امام مالک رحمہااللہ اور حنابلہ کے راجح قول کے مطابق عورت کے لئے اس طرح درمیان صف میں کھڑا ہونا صرف مکروہ ہے ، لیکن اس سے مردوں کی نماز فاسد نہیں ہوگی ۔
آج کل حرمین شریفین میں مرد مقتدیوں کو چاہیے کہ بوقت ابتلاء ان صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار فرمالیں ، لیکن اگر ایسانہ ہوسکے تو چونکہ یہ صورت عام ابتلاء کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اس لئے اہل فتوی کو اس مسئلہ میں ائمہ ثلاثہ کے مسلک پر فتوی دینے کی گنجائش پر غور کرنا چاہیے ۔
تاہم واضح رہے یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب ائمہ حرمین ، عورتوں کی امامت کی نیت کرتے ہوں ، لیکن اگر وہ عورتوں کی امامت کی بالکل نیت نہیں کرتے تو پھر عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی خواہ مردوں کے برابر میں آکر کھڑی ہوں یا علیحدہ کھڑی ہوں ، البتہ مردوں کی نماز درست ہوجائے گی ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More