>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(شعبان 1436ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : فقہ کی کتب میں بہت سی جگہوں میں جو لکھا ہوتا ہے کہ "قضاء ً ” طلاق واقع ہوگی "دیانۃً ” نہیں یا "دیانۃً” تصدیق کی جائے گی قضأً نہیں۔ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ۔ نیز عصر حاضر میں اس کی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ؟
جواب: کتب فقہ میں جو مذکور ہے کہ "قضأً طلاق واقع ہوجائے گی دیانۃ ًنہیں” یا "قضأً اس بات کی تصدیق کی جائے گی دیانۃً نہیں ” اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ اگر عدالت تک نہ پہنچا ہو تومتکلم اگر اپنے الفاظ کا ایسا مفہوم بیان کرتا ہے جو ان الفاظ کے ظاہری اور متعارف معنی کے مطابق نہیں البتہ ان الفاظ میں اس معنی کا بھی احتمال موجود ہے تو اس کی بات معتبر ہوگی اور اس کے لئے اپنے بیان کردہ مفہوم کے مطابق عمل کرنا جائز ہے ۔ لیکن اگر معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو عدالت اس کی بات کی تصدیق نہیں کرے گی اور اس کی نیت پر فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اس کے الفاظ کا جو ظاہری اور متعارف مفہوم ہے اس کے مطابق فیصلہ دے گی جیسے کسی نے اپنی بیوی کے بارے میں طلاق کا لفظ کہا اور اس کا دعوی یہ ہے کہ میری مراد ان الفاظ سے "قید سے چھٹکارا” تھا تو چونکہ عربی لغت کے اعتبار سے عربی جملہ میں اس معنی کا احتمال ہے اس لئے اگر واقعۃً اس کی یہی نیت تھی تو اس کے مقتضا پر عمل کرتے ہوئے وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اگر یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا اور عدالت میں اس نے یہ بات کہی کہ میری نیت ان الفاظ سے طلاق دینے کی نہیں تھی تو عدالت اس کی بات کی تصدیق نہیں کرے گی اور ان الفاظ کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے اس کی بیوی کو مطلقہ قراردے گی ۔ واضح رہے کہ بیوی چونکہ اس معاملہ میں قاضی کی طرح ہے اس لئے اگر اس کوطلاق کے الفاظ کا علم ہوگیا تو اس کے لئے بھی دیانۃ کے مقتضٰی پر عمل جائزنہیں ہوگا۔ لمافی کتب الفقہ ان المرأۃ کالقاضی
سوال : ایک صاحب نے بتایا کہ اگرجیب میں نقدی ہواور سونا نصاب سے کم ہوتو پھر اس سونے کی قیمت لگائی جائے گی اور چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا اور مزید فرمایا کہ نقدی کم ازکم 2000 روپے ہونی چاہیے ۔ براے مہربانی وضاحت فرمادیں۔
جواب: اگر کسی شخص کے پاس سونا نصاب (ساڑھے سات تولہ) سے کم ہو لیکن اس کے پاس سونے کے علاوہ کچھ نقد رقم یا چاندی یا تجارت کا سامان ہو تو اس صورت میں ان چیزوں کو سونے کے ساتھ ملاکر ان کی مجموعی قیمت کا حساب کیا جائے گا اگر ان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے تو اس شخص پر زکوۃ لازم ہے ۔ البتہ یہ کہنا کہ نقدی کی مالیت کم ازکم دوہزار روپے ہو یہ بات درست نہیں اس کی کوئی متعین مقدار نہیں ہے تھوڑی سی بھی نقد رقم موجود ہوتو اس کو سونے کے ساتھ ملاکر اس کی مالیت کا اعتبار ہوگا اگر مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوگئی تو زکوۃ لازم ہوگی۔
سوال : ایک خاتون کے پاس نقدی ہوتی ہے تقریباً چھ ہزار تک اور سونا بھی نصاب سے کم ہے ۔ اور یہ نقدی وہ اس لئے رکھتی ہے کہ اس کی والدہ بیمار ہے اور والدہ کا علاج عام طورپر بھائی کرادیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اگران کے پاس رقم نہ ہوئی تو پھر وہ خاتون اپنے پیسوں سے علاج کراتی ہے ۔ تو آیا اس طرح اس کی یہ نقدی جو سونے کی قیمت سے مل کرچاندی کے نصاب تک پہنچی ہے ۔ اس پر زکوۃ واجب ہوگی یا یہ کہ یہ رقم ضرورریات میں سے قراردی جائے گی جبکہ یہ نقدی سال بھر رہی ہے ۔
جواب: صورتِ مسئولہ میں اس نقدی پر زکوۃ لازم ہے کیونکہ نقد رقم سونے چاندی کے قائم مقام ہے اور سونے چاندی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ حوائج اصلیہ سے زائد ہو۔
٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More