>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(رجب 1436ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : ہمارے علاقے میں ایک معاملے نے رواج پیداکیا ہے وہ یہ ہے کہ ڈالر کی بازاری قیمت ۱۰۲ روپے ہے ،زید عمرو کو ڈالر بیچتا ہے پاکستانی کرنسی کے عوض میں ۱۰۴ روپے میں اس شرط پر کہ عمر ایک مہینہ کے بعد پاکستانی کرنسی دے گا۔یعنی صلبِ عقد میں ایک مہینہ کی شرط لگاکر نسیئہ کے طورپر معاملہ کرتا ہے ۔
جواب: ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک کی کرنسی کے عوض ، جیسے ڈالر کی پاکستانی روپے کے عوض ، ادھار خرید وفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے :
(۱) دونوں کی کرنسیوں میں سے کسی ایک پر مجلس عقد میں قبضہ ضرور کرلیاجائے۔
(۲) کرنسی کی قیمت بازار میں رائج موجودہ قیمت سے زیادہ مقرر نہ کی جائے ؛ تاکہ اس معاملے کو سود کاحیلہ نہ بنایاجاسکے۔
(۳) کرنسیوں کا ادھار معاملہ کرنے کی حکومت کی طرف سے اجازت ہو۔
مذکورہ شرائط میں سے پہلی دوشرطوں کا لحاظ نہ کرنے کی صورت میں یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا، اور اگر تیسری شرط کا لحاظ نہ رکھا گیا ، تو اگرچہ معاملہ فی نفسہٖ درست ہوجائے گا ، لیکن ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔
سوال میں ذکرکردہ صورت میں مذکورہ شرائط میں سے شرط نمبر ۲ نہیں پائی جارہی ؛ اس لئے یہ معاملہ جائز نہیں ہے ، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے ۔
سوال : سید خاندان والے کہتے ہیں کہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ عام مسلمانوں کا نکاح نہیں ہوسکتا جبکہ میں تنول قوم سے رکھتا ہوں اور اپنے بیٹے کا نکاح سید کی بیٹی سے کرنا چاہتا ہوں لڑکی کے ماں باپ بہن بھائی سب خوشی رضا مندی سے ہمیں رشتہ دے رہے ہیں لوگ ویسے باتیں کرتے ہیں کہ سید کی بیٹی سے نکاح مناسب نہیں ہے قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں ۔
جواب: سید لڑکی کا نکاح غیر سید لڑکے کے ساتھ لڑکی کے ولی کی اجازت سے جائز ہے ، یہ کہنا کہ سید لڑکی کا نکاح غیرسید لڑکے سے بالکل نہیں ہوسکتا، غلط ہے ، یہ بات درست نہیں ، البتہ اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہوتو یہ نکاح منعقد نہ ہوگا۔ مذکورہ صورت میں اگر سید لڑکی کے والد آپ کے بیٹے کو رشتہ دینے میں اپنی بیٹی کی مصلحت سمجھتے ہیں اور بیٹی بھی اس پر راضی ہے تو یہ نکاح شرعاً جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
سوال : ہمارے بعض لوگ چوری کیا ہوا سامان فروخت کرتے ہیں مثلاً موبائل فون ، سائیکل وغیرہ اگرخریدنے والے کو یقین ہو کہ سامان چوری کاہے تو اس طرح کا سامان خریدنا شرعاً کیسا ہے ۔ خریدنا گناہ ہے یا نہیں ؟
جواب : جس چیز کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے اس کا خریدناشرعاً جائز نہیں اس سے اجتناب لازم ہے ۔ اگر علم کے باوجود خریدلی تو خریدنے والا گناہ گار ہوگا۔
سوال : میری دوبیویاں ہیں پہلی بیوی سے ۵ بچے پیدا ہوئے اور دوسری شادی میں نے اس مجبوری کے تحت کی کہ پہلی بیوی میری خدمت نہیں کرتی اور نہ ہی اپنی اولاد کی صحیح پرورش کرتی ہے ۔نیز اب مجھے پہلی بیوی سے مزید اولاد کی ضرورت نہیں اس بناپر میں اس سے ہمبستری نہیں کرتا ۔اس عمل میں میں گناہ گار ہوں یا نہیں نیز اس کے میرے ذمے کیا حقوق ہیں ؟
جواب : بیوی کے ساتھ کبھی کبھار ازدواجی تعلقات قائم کرنا بیوی کا حق ہے ، اور دیانۃً اس حق کی ادائیگی لازم ہے ۔اگر کوئی شخص قدرت کے باوجود اس کا یہ حق ادانہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے۔آپ پر لازم ہے کہ پہلی بیوی کا بھی حق اداکریں اور اس کو اس طرح لٹکاکر نہ رکھیں ۔ البتہ بیوی کے ساتھ ہمبستری کا شریعت کی طرف سے کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، یہ میاں بیوی کی باہمی رضا مندی اور نشاط پر موقوف ہے۔ اگر بیوی کو حاجت نہ ہو تو اس کی اجازت سے اس میں وقفہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا دورانیہ چارماہ سے کم ہونا چاہیئے اس سے زیادہ وقفہ قطعاً مناسب نہیں ۔ تاہم اگر بیوی کو حاجت نہ ہواور بیوی خوشی سے طویل وقفہ پر راضی ہواور اتنا عرصہ جماع ترک کرنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو اس کی رضامندی سے زائد عرصہ تک بھی مجامعت ترک کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک بیوی کے شوہر کے ذمہ حقوق کا تعلق ہے تو وہ درج ذیل ہیں:
(۱) اچھے اخلاق سے پیش آنا (۲) اس سے پہنچنے والی معمولی تکلیفوں کو برداشت کرنا (۳) غیرت میں اعتدال کرنا یعنی نہ بدگمانی کرے اور نہ بالکل غفلت برتے (۴) خرچ میں اعتدال کرنا یعنی نہ تنگی کرے نہ فضول خرچی کی اجازت دے (۵) عورتوں کے مسائل مثلاً حیض نفاس وغیرہ سیکھ کر اس کو سکھلانا، نماز اور دین کی تاکید کرنا، بدعات اور دوسرے ناجائز امور سے منع کرنا (۶) اگرایک سے زائد بیویاں ہوں توان کو حقوق میں برابر رکھنا(۷) بقدرضرورت اس سے وطی کرنا(۸) اس کی اجازت کے بغیر عزل نہ کرنا(۹) بلاضرورت طلاق نہ دینا(۱۰) بقدر کفایت رہنے کو گھر دینا(۱۱) اس کے محارم سے اس کو ملنے دینا(۱۲) اس کا راز ظاہر نہ کرنا (۱۳) حدشرعی سے اس کو زیادہ نہ مارنا ، بلکہ حتی الامکان ہاتھ نہ اٹھانا۔
جس چیز کے بارے میں یقین ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے اس کا خریدناشرعاً جائز نہیں اس سے اجتناب لازم ہے ۔ اگر علم کے باوجود خریدلی تو خریدنے والا گناہ گار ہوگا۔
٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More