>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

(جمادي الثانيه 1436 ھ)آپ کا سوال

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : سونے کے زیورات بغیر ملاوٹ کے نہیں ملتے ، مگر بنوائی کے دوران سونا کئی کاریگروں کے ہاتھ سے نکلتا ہے ۔ اس لئے زیورات بنواتے وقت سونا کے وزن میں کمی ہوتی ہے ۔اس لئے یہ کسی ملاوٹ سے پوری کی جاتی ہے ۔ مگر گاہک سے مجبوراً پورے وزن کی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔ اور فروخت کے وقت یہی ملاوٹ کاٹ کے ذریعہ پوری کی جاتی ہے ۔
جواب: سونے میں اگراتنی ملاوٹ کی گئی ہے جتنی بازار میں معروف ہے اور بائع اور مشتری دونوں کو اس کا علم بھی ہے اور دونوں اس پر راضی ہیں اور اس کی اتنی ہی قیمت لی جارہی ہے جس کابازار میں عرف ہے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں اور نہ گاہک کو بالتصریح اس کابتانا ضروری ہے تاہم اگر گاہک پوچھے تو اس کو بتانا ضروری ہے چھپانا یاخلاف حقیقت بات کہنا جائز نہیں اور اگر بازار میں جو مقدار معروف ہے اس سے زائد ملاوٹ کی جائے تو اس صورت میں گاہک کو اس کی اطلاع دینا ضروری ہے کہ اس سونے میں اتنی ملاوٹ کی گئی ہے اور بازار میں اتنی ملاوٹ کی جاتی ہے پھر اگر وہ چاہے تواسے خریدلے اور چاہے تو چھوڑدے ، لیکن بتائے بغیر اس کو فروخت کرنا یا غلط بیانی سے کام لینا جائز نہ ہوگا۔
سوال : اگرایک گاہک ہم سے خالص سونا مثلاً ایک تولہ ریٹ 45000 میں خرید لیتا ہے ، اور سونا اس کی ملکیت میں چلاجاتا ہے ۔خریدنے کے بعدوہی گاہک وہی ایک تولہ سونا ایک مہینہ مدت کے لئے بطور قرض ریٹ سے مہنگا یعنی 46000 روپے فروخت کرے۔ تو کیا اس کے لئے کوئی شرعی بات موجود ہے ۔ کہ آیا یہ شریعت کے مطابق ہے یا یہ لین دین شرع کے مطابق صحیح نہیں ہے ؟
جواب: مذکورہ صورت میں اس طرح سے معاملہ کرناکہ وہی سونا واپس بائع کے پاس پہنچ جانا مشروط یا معروف ہو یہ بیع عینہ ہے جو کہ مکروہ تحریمی (یعنی ناجائز ) ہے نیز بازاری ریٹ سے زائد پر سونا فروخت کرنے میں چونکہ سود کا قوی شبہ ہے اور اموال ربویہ میں شبہ سے بھی حرمت پیدا ہوجاتی ہے اس لئے مذکورہ صورت کو اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔
سوال : آج کل تیار سونے کے زیورات پر وزن کے علاوہ پالش کا وزن بھی ڈال دیا جاتا ہے جبکہ سونے کا وزن ایک تولہ یعنی 12 گرا م ہے مگر پالش ملاکے وزن 12.200 گرام بن جاتا ہے ۔ اور گاہک سے رقم 12.200 گرام کی وصول کی جاتی ہے ۔ جبکہ وزن تیار موجود 12 گرام ہے اور واپسی فروخت زیورات پرپالش کے علاوہ کاٹ بھی لیا جاتا ہے ۔ اس طرح وزن10 گرام رہ جاتا ہے اور گاہک کو بھی 10 گرام کی رقم دی جاتی ہے ، توکیا شریعت کے مطابق پالش لگانا جائز ہے ؟
جواب : سونے کی جب کرنسی سے خرید وفروخت ہوتو اس صورت میں احتیاط تو اسی میں ہے کہ ہاتھ درہاتھ بیچا جائے اور اگر ادھار پر بیچاجائے تو موجودہ بازاری قیمت سے کمی بیشی کرنے میں چونکہ سود کا قوی شبہ ہے اور اموال ربویہ میں شبہ سے بھی حرمت پیداہوجاتی ہے اس لئے مذکورہ صورت کو نفع اندوزی کے لئے اختیار کرنا جائز نہیں اگرسونے کو ادھار پر بیچنا ہوتو اس میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
(۱) خرید وفروخت کے وقت ہی کل قیمت اور ادائیگی کی مدت کا تعین ہوجائے۔
(۲)مذکورہ معاملہ میں چونکہ دونوں طرف سے ثمن خلقی نہیں بلکہ ایک طرف سے ثمن عرفی (کرنسی)ہے اور ایک طرف سے ثمن خلقی (سونا) ہے اس لئے دونوں عوض میں سے کسی ایک پر مجلس عقد ہی میں قبضہ ہونا ضروری ہے ۔
(۳)اگر رقم کی ادائیگی میں معینہ مدت سے کچھ تاخیر ہوجائے تو اس پر مزید رقم کا مطالبہ نہ کیاجائے۔اگر مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط کی بھی خلاف ورزی کی گئی تو معاملہ جائز نہ ہوگا۔
(۴) پالش کے نام پر زائد اخراجات وصول کرنا جبکہ اس کا حقیقی وجود بھی نہیں دھوکا ہے اس لئے ناجائز ہے بلکہ اخراجات کے طورپر جو حقیقت میں خرچہ ہوا ہے وہی لگانا ضروری ہے ۱۲؍ گرام سونے کو(۲۰۰.۱۲) گرام ظاہر کرکے بیچنا ناجائز ہے ۔ البتہ اگر معاملہ کرتے وقت دوکاندار صاف صاف گاہک کو بتادے کہ سونا اس قدر ہے البتہ اس قدرمیں مزدوری لوں گا اور اس طرح سے سیٹ کی قیمت میں باہمی رضامندی سے اضافہ ہوجائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ لیکن گاہک کو بے خبر رکھ کر اس سے اضافی رقم وصول کرنا یا خریدتے وقت اصل سونے سے اضافی کٹوتی کرلینا ہرگز جائز نہیں۔
٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More