>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(جمادی الاولیٰ 1436ھ)

محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریزفرمائیں …………………………………………. (ادارہ)
سوال : جناب والا !اللہ پاک نے انسان کے فائدے کے لئے کائنات میں مختلف قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں جن میں پالتو جانور گائے ، بھینس وغیرہ سرفہرست ہیں ۔ جس طرح ہرچیز میں نئی سے نئی اقسام پیدا ہورہی ہیں اسی طرح جانوروں میں بھی مختلف ممالک سے نئی نئی اعلیٰ قسم کی نسلیں ہمارے ملک میں اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہیں ۔ اب ان جانوروں میں مصنوعی نسل کشی شروع ہوگئی ہے جس میں بیل یا سانڈ سے سیمن (Semin) لے کر انجکشن کے ذریعے مادہ کو مخصو ص وقت میں لگایا جاتا ہے یہ طریقہ پہلے پہل کامیاب تھا اب متعلقہ محکمے کی لاپروائی کی وجہ سے یہ طریقہ فیل ہوگیا ہے اور اس کی کامیابی %۸۰سے % ۱۰ تک آگئی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر حضرات ایک انجکشن کے ۵۰۰ سے لے کر ۱۵۰۰ روپے تک معاوضہ لیتے ہیں ۔ جس سے مالک کو تاوان کے ساتھ ساتھ کام نہ ہونے یعنی مادہ گھابن نہ ہونے کا نقصان ہوجاتا ہے ۔ دوسری طرف اچھے قسم کے سانڈ عام طورپر ملتے نہیں ۔ اب اگر کاشتکار اچھے قسم کا سانڈ ۷۰ یا ۸۰ ہزار میں خریدے تو اس کا پالنا بہت مشکل ہے لوگوں نے تجرباتی طوپر پالے تو روزانہ کے حساب سے ۵۰۰ روپے کھاجاتا ہے جوکہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ اگرمقامی آبادی میں ایک آدمی ایک سانڈ یا بیل پالے اور گائے کے مالک سے کہے کہ میں تجارتی غرض سے نہیں بلکہ اس بیل کی خوراک کی غرض سے کچھ معاوضہ لیتا ہوں لہٰذا اب آپ یا تو سانڈ کے لئے ۵ یا ۱۰ کلو ونڈہ لائیں یا نقد دے دیں تاکہ میں اس کے لئے خوراک خرید سکوں تو برائے مہربانی رفاہ عامہ کی خاطر قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی راستہ نکال کر فتوے سے مشکور فرمادیں ۔ یہاں زید اور عمر کے درمیان بحث ہوگئی زید کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی پر اجرت لینے سے منع کیا ہے لہٰذا یہ حرام ہے ۔ عمر کہتا ہے کہ دین میں اتنی تنگی نہیں ہے اور اللہ پاک نے ہرزمانے میں ایسے علمائے حق پیدا کئے ہیںجوکہ مشکل مسائل کا حل نکالتے ہیں ۔ جس طرح امامت اور قرآن وحدیث کے درس پر اجرت منع تھا لیکن اس کی ضرورت دیکھ کر متأخرین نے ضرورت کے مطابق لینا دینا جائز قراردیا۔ اسی طرح اب اگر ایک آدمی اپنی جیب سے پیسے دے کر بیل خریدے اور اس سے لوگوں کی ضرورت آسانی سے حل ہوجاتی ہے تو اس کے لئے آسانی کے ساتھ بنسبت انجکشن کے بہت فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔
جواب: احادیث مبارکہ میں جانور کونسل کشی کے لئے اجرت پر دینے سے منع کیا گیا ہے ، اس لئے اس مقصد کے لئے جانور دینا اور اس پر طے کرکے اجرت لینا جائز نہیں لیکن اگر عین معاملہ کرتے وقت کوئی رقم طے نہ کی جائے بلکہ طے کئے بغیر کوئی جانور کی خدمت کے لئے کچھ دے دے تو اس کا لینا شرعاً جائز ہے ۔ نیز یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ ایک دن کے لئے مالک سے بیل بار برداری یا کسی اور مقصد کے لئے اجرت پر لیا جائے اور ساتھ ساتھ مالک سے بیل کو گائے وغیرہ پر چھوڑنے کی اجاز ت بھی لے لے ، یا گائے کا مالک ایک دن کے لئے گائے ، بیل کے مالک کو دے دے کہ وہ اس کی خدمت کرے اس کو چارہ ڈالے اور اس خدمت کی اجرت طے کرلی جائے اور اس دوران بیل کو اس پر چھوڑدیا جائے تو یہ صورتیں اختیار کرنے کی بھی گنجائش ہے ۔
سوال : عورتوں کے لئے کون مہندی سے ہاتھوں پر ڈیزائن بنانا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب : عورتوں کے لئے ہاتھوں پر کون مہندی لگانا اور مہندی سے ڈیزا ئن بنانا فی نفسہ جائز ہے ۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ مہندی میں کوئی ایسا کیمیکل نہ ملایاگیا ہو جس کی وجہ سے تہ آجاتی ہو کیونکہ ایسی صورت میں وضو اور غسل کے دوران پانی جلد تک نہیں پہنچ سکے گا جس کی وجہ سے وضواور غسل ادھورا رہے گا اور نماز نہیں ہوگی اس لئے ایسی مہندی لگانے سے اجتناب کیا جائے ۔
٭٭٭
سوال : میرے پاس ایک کمپنی کے شیئرز بیس سال سے ہیںعموماً ان کا لین دین نہیں ہوتا اور ان حصص کی قیمت بورڈ پر آتی ہے لیکن فروخت کرنا چاہوتو لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
کمپنی ایک یا سو شیئرز کا لین دین کرکے اپنے حصص کی قیمت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے مگر شیئر ز کو زیادہ مقدار میں بیچنا چاہو تو کوئی لینے کو تیار نہیں اور کوئی خریدار نہیں ملتا اس وقت میرے پاس جو حصص ہیں ان کی مالیت ۳۷ لاکھ روپے ہے اور پچھلے سال ان کی مالیت ۸۰ لاکھ تھی یہ شیئرز جب بکتے نہیں تو میں ان کی زکوۃ کیسے نکالوں؟
جواب: اگرا ٓپ کا مقصد اس کمپنی کے شیئرز خریدنے سے (Capital gain ) تھایعنی شیئرز کی خرید وفروخت کے ذریعہ نفع کمانا مقصد تھا تو یہ شیئرز سامان تجارت میں شامل ہیں زکوۃ کا سال پورا ہونے پر ان شیئرز کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق زکوٰۃ اداکرنا لازم ہے ۔ ان شیئرز کی موجودہ ویلیو سینتیس لاکھ روپے ہے لہٰذا اس مالیت کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ اداکرنا آپ پر لازم ہے، چاہے خریدار مہیا ہوں یا نہ ہوں کیونکہ خریدار مہیا نہ ہونے سے ان کی مالیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ خصوصاً جب کہ ان کی خرید وفروخت ہوتی بھی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یکمشت فروخت نہ کئے جائیں بلکہ آہستہ آہستہ کرکے فروخت کردیے جائیں ۔
لیکن اگر آپ کا مقصد کمپنی میں سرمایہ کاری کرکے اس کے نفع میں شرکت تھا تو اس صورت میں اگر کمپنی کے قابل زکوۃ اثاثوں (نقد رقم ، خام مال اور تیار مال) اور غیر قابل زکوۃ اثاثوں (عمارت ، فرنیچر ، مشینری)وغیرہ کی تحقیق ممکن ہوتو قابل زکوۃ اثاثوں کے بقدر شیئرز کی قیمت پر زکوۃ واجب ہوگی اور غیر قابل زکوۃ اثاثوں کے بقدر زکوۃ واجب نہ ہوگی ۔ مثلاً شیئرز کی مارکیٹ ویلیو سوروپے ہے جن میں سے ساٹھ روپے بلڈنگ مشینری وغیرہ کے مقابلہ میں ہے اور چالیس روپے خام مال تیار مال اور نقد رقم کے مقابلے میں ہے تو اس صورت میں شیئرز کے چالیس روپے قابل زکوۃ اثاثوں کے مقابلہ میں ہیں لہٰذا چالیس روپے پر زکوۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے واجب ہوگی اور ساٹھ روپے کی زکوۃ واجب نہ ہوگی ۔ تاہم اگر قابل زکوۃ اور غیر قابل زکوۃ اثاثوں کی تحقیق مشکل ہو یا تحقیق تو ممکن ہو لیکن آپ احتیاطاً پوری مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوۃ ادا کردیں تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔
سوال :کچھ کمپنیوں کے شیئرز میرے پاس ہیں جن کو اسٹاک ایکسچینج نے ڈیفالٹر قراردے دیا اور ان کا لین دین نہیں ہوتا آیا ان پر زکوۃ آئے گی یا نہیں اگر آئیگی تو کیسے آئے گی وضاحت فرمادیں۔
جواب: اگر مذکورہ کمپنیوں کو اس وجہ سے ڈیفالٹر قرار دیا گیا ہے کہ ان کے شیئرز کی قیمت انتہائی کم ہوچکی ہے یا صرف ناقابل زکوۃ اثاثوں کے برابر رہ گئی ہے یا کل اثاثوں سے ان کمپنیوں کا نقصان یا ان پر واجب الادا دین متجاوز ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کو ڈیفالٹر قراردیا گیا ہے اور اب ان کمپنیوں کی مارکیٹ میں کوئی ویلیو برقرار نہیں رہی تو ان کمپنیوں کے شیئرز کی زکوۃ اداکرنا آپ پر لازم نہیں ۔
سوال : موبائل فون میں اذان کی ٹون اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور قرآن مجید کی کسی آیت کی ٹون لگانا کیسا ہے ؟ اسی طرح ہم جب کسی کو کال کرتے ہیں تو جب تک وہ کال وصول نہیں کرتا گھنٹی کی جگہ آیت الکرسی یا سورۃ الرحمن کی ابتدائی آیات یا قرآن مجید کی کوئی آیت سنائی دیتی ہے جب فون اٹھالیتا ہے تو آواز رک جاتی ہے بعض اوقات چونکہ وہ شخص فون جلدی اٹھالیتا ہے اس وجہ سے آیت ادھوری رہ جاتی ہے جبکہ قرآن مجید کی آیت کی جگہ نعت وغیرہ بھی ٹون کے طور پر مقرر کرسکتے ہیں۔
جواب: قرآنی آیات ، ذکروتسبیح درود شریف وغیرہ کے کلمات اور ایسی نظمیں یا نعتیں جو ذکراللہ پر مشتمل ہوں اور ان سے مقصود ذکراللہ ہو مثلاً اسماء حسنی پر مشتمل نظم وغیرہ ہوتو ایسی تمام چیزوں کو ذکر کے علاوہ کسی اور جائز مقصد کے لئے استعمال کرنے کے جواز اور عدم جواز کا مدار اغراض ومقاصد پر ہے اگر مقصد شرعاً درست ہو تو اس مقصد کے لئے ان کا استعمال جائز ہے ورنہ جائز نہیں ۔ مثلاً وہ مقاصد دوطرح کے ہوسکتے ہیں:
(۱) ۔۔تذکیر لذکراللہ (۲) ۔۔۔ اعلام
مذکورہ بالا مقدس کلمات کو فون کی رنگ ٹون کے طورپر استعمال کرنے کا مقصد اگر یہ ہو کہ جب فون آئے تو بجائے موسیقی یا کسی بے معنی قسم کی ٹون کے مقدس کلمات کان میں پڑیں اسی طرح فون کرنے والے کے لئے انتظار کی گھنٹی کی جگہ مقدس کلمات لگانے کا مقصد یہ ہوکہ جب تک فون اٹھایا نہ جائے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام ، ذکر اللہ یا دینی واصلاحی مضامین پر مشتمل نظموں یا نعتوں سے مستفید ہوتا رہے تو اس کی فی نفسہ گنجائش معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ اس مقصد کے حصول میں دوخرابیاں لازم آسکتی ہیں اس لئے ان سے بچنا ضروری ہوگا :
(۱) اچانک فون اٹھانے کی صورت میں قرآنی آیات درمیان میں کٹ جائیں گی جس میں ان آیات کی بے ادبی لازم آتی ہے لہٰذا قرآنی آیات اس مقصد کے لئے استعمال نہ کی جائیں نہ سننے میں نہ سنانے میں۔
(۲) دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ جس شخص کو فون کیا گیا ہے بعض اوقات وہ بیت الخلاء میںہوتا ہے تو فون آنے پر ایسی حالت میں مذکورہ مقدس کلمات کے موبائل فون پر جاری ہونے میں بے ادبی ہوگی لہٰذا مقدس کلمات فون سننے کی گھنٹی کی جگہ استعمال نہ کئے جائیں ۔
اگر دوسرا مفقصد اعلام پیش نظر ہو یعنی مذکورہ مقدس کلمات کواس لئے موبائل فون میں مقرر کیا جائے تاکہ اس کے ذریعہ فون آنے کی اطلاع ملنے کا فائدہ حاصل ہوتذکیر مقصود نہ ہو تواس مقصد کے لئے مذکورہ بالامقدس کلمات کو استعمال کرنا درست نہیں بلکہ مکروہ ہے ۔
سوال :میں نے ایک عیسائی خاتون سے نکاح کیا ۔ اس بیوی نے میرے خلاف جھوٹے مقدمات داخل کیے ہوئے ہیں اور اس کا ساتھ اس کے عیسائی رشتہ دار دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ مسلمان بھی اس طرح اس کا ساتھ دے رہے ہیں کہ تمہارا نکاح اس عیسائی لڑکی سے نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو تم اس کو طلاق دے دواور اس کو خلع لینے پر اکسارہے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر یہ عیسائی لڑکی اصل عیسائی مذہب پر ہے یعنی کسی نبی کی نبوت اور رسالت کی قائل ہے اور اس بات کی معتقد ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی کتاب نازل ہوئی ہے ، لامذہب یا دہریہ نہیں ہے تو یہ اہلِ کتاب ہے اور اہل کتاب عورت سے مسلمان مرد کا نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے اگرچہ پسندیدہ نہیں ۔ لیکن نکاح ہوجانے کے بعد اب دوسرے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس شخص کو طلاق یاخلع پر مجبور کریں، ان پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل سے باز آئیں ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More