>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

آپ کا سوال(ربیع الثانی 1438ھ)

ڈاکٹر محمد حسان اشرف عثمانی

آپ کا سوال

قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کاہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریز فرمائیں …………………………(ادارہ)

سوال : بندہ تقریباً تیرہ سال سے ذمہ دار کی حیثیت سے پٹرول پمپ پر کام کررہا ہے جس کی اجرت مالکان کی طرف سے چار ہزار روپے ماہانہ ہے ، باقی اوپر کی کمائی ہے، اوپر کی کمائی سے مراد پٹرول بھرتے وقت کسٹمر کو باتوں میں لگاکر میٹر میں گڑبڑ اور کم پٹرول بھرنا ہے ، جس سے مالکان اور مینیجر بخوبی واقف ہیں ، اور مالکان ہمیں خود اس کام کے لئے مجبور کرتے ہیں ، اور مینیجر کی طرف سے بھی اس کی مکمل اجازت اور سپورٹ حاصل ہے ۔میں نے اس کام کو چھوڑنے کی بہت کوشش کیمگر کوئی اور راستہ نہیں ملا، اب بندہ اس کام سے بالکل بے زار ہوچکا ہے ، اور اس کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں جانتا، نیز بندہ گھر کا ذمہ دار بھی ہے ، اور شادی شدہ بھی ، اور والد کی مالی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ اس سے گھر چل سکے ، ایسی صورتحال میں شریعت کے حکم سے آگاہ فرمائیں ۔

جواب: اس صورت میںآپ نے "اوپر کی کمائی”(یعنی کسٹمر کو باتوں میں لگاکر میٹر میں گڑ بڑ کرکے زیادہ قیمت لے کر کم پٹرول بھرنے کے ذریعہ ) سے جو رقم حاصل کی ہے وہ ناجائز اور حرام ہے جو ان کے مالکان کو واپس کرنا ضروری ہے ، البتہ اصل تنخواہ چارہزارروپے آپ کے لئے حلال ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مینیجر اس دھوکہ دہی پر مجبور کرتے ہیں توا س سے بھی حرام کا م حلال نہیں ہوگا، لہٰذا دھوکہ سے بچتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ کام کرنا لازم ہے ، مینیجر بھی اپنے اس عمل کی وجہ سے سخت گنہگار ہورہاہے ، اس پر لازم ہے کہ خدا کا خوف کرے اور اس حرام کام سے بچے۔ سوال :بندہ کی جو حلال تنخواہ ہے ،ظاہر ہے کہ وہ چار ہزار رروپے ہے اور گھر چلانے کے لئے وہ ناکافی ہے ، اور تلاش کے باوجود دوسری جگہ ملازمت بھی نہیں مل رہی ، اسی لئے اب بندہ اپنا کوئی حلال روز گار کرنا چاہتا ہے ، اور کوئی قرض دینے والا بھی نہیں ہے ، تو ایسی صورتحال میں اس کے لئے حرام کمائی والی رقم اس نیت سے کاروبار میں لگانے کی گنجائش ہے کہ آئندہ تھوڑی تھوڑی رقم صدقہ کرتارہے گا۔ نیز بندہ توبہ کرتا ہے کہ آئندہ زندگی میں ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہو۔ جواب : حرام آمدنی کو اس کے اصل مالکان تک پہنچانا لازم ہے اور اگر مالکان معلوم نہ ہوں یا ان تک پہنچانا ممکن نہ ہوتو ان کی نیت کرکے صدقہ کرنا لازم ہے ، لہذا اصولاً تو مذکورہ رقم کا صدقہ کرنا آپ پر واجب ہے ۔ اب اگر موجودہ تنخواہ چارہزارروپے سے گھر چلانا ممکن نہیں ، اور واقعۃً آپ کی کوئی اور حلال آمدنی بھی نہیں ہے ، اور کوئی دوسری جائز ملازمت بھی باجود تلاش کے نہیں مل رہی ہے ، نیز کاروبار کرنے کے لئے کوئی قرض دینے والا بھی نہیں ہے ، اور ساری حرام رقم ایک ساتھ صدقہ کرنے کی صورت میں شدید پریشانی اور تکلیف میں مبتلاہونے کا غالب گمان ہے تو ایسی صورت میں ضرورت کے مطابق کچھ رقم کا روبار میں لگانے کی گنجائش ہے ، البتہ بقیہ رقم مالکان کی نیت کرکے صدقہ کرنا لازم ہے ۔ نیز ضرورت کے مطابق کچھ رقم کاروبار میں لگانے کے بعد گھر کی ضروریات پوری کرتے ہوئے اس میں سے کچھ رقم صدقہ کرنے کا معمول بنالیں اس طورپر کہ جتنی حرام رقم آپ نے کاروبار میں استعمال کی ہو وہ صدقہ ہوجائے ۔ سوال :رشوت دینے کی اجازت کب ہے اور کن شرائط پر؟ جواب : فقہاء کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ اگر رشوت دینا ظلم اور ضرر سے بچنے کے لئے ہو تو اس صورت میںرشوت دینے کی گنجائش ہے ، لیکن لینے والے کے لئے اس کا لینا پھر بھی جائز نہیں ،بلکہ حرام ہے ۔

٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More