پاکستان کے دینی مدارس اور عصری جامعات کا نصاب بین الاقوامی جامعات کے نصاب کے تناظر میں

مولانا ڈاکٹر نثار اختر صاحب

مولانا ڈاکٹر نثار اختر صاحب

پاکستان کے دینی مدارس اور عصری جامعات کا نصاب
بین الاقوامی جامعات کے نصاب کے تناظر میں

وطن عزیز پاکستان میں ویسے تو مختلف نظامہائے تعلیم رائج ہیں تاہم عمومی طور پر ان کو دونظاموں میں منقسم سمجھاجاتا ہے،ایک دینی مدارس کانظام تعلیم اور دوسرا عصری اداروں کا نظام تعلیم،ان دونوں نظامہائے تعلیم کے نصابات کافی حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مذہبی نظام تعلیم میں پہلے سال سے لیکر آخری سال(دورہ حدیث ) تک ہر سال مختلف دینی علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف عصری نظام تعلیم میں طلباء کو ہر سال مختلف عصری علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں،عام طورپر اگرچہ ان دونوں تعلیمی نظاموں کے حوالے سے گفت وشنید کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم زیادہ ترجس نصاب کو کچھ سالوں سے موضوع بحث بنایا گیا ہے وہ دینی مدارس کا نصاب اور اس میں اصلاحات ہیں،دینی مدارس کے حوالے سے ہردورمیں مختلف ارباب دانش کی طرف سے یہ مطالبہ آتا ہے کہ اس کے نصاب میں تبدیلی کی جائے پھربعض الناس مذکورہ مطالبہ میں اس حد تک گئے ہیں کہ ان کے بقول دینی مدارس کے نصاب کو بالکلیہ تبدیل کیا جائے اور اس کو جدید طرز پر مرتب کیا جائے،جوکہ بدیہی البطلان ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرحاضر کے تقاضوں کی بناء پر ہرنصاب میں کچھ نہ کچھ بہتری کی گنجائش ہے،کیونکہ مرورایام کے ساتھ ضروریات اور تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں،تاہم بہتری کی یہ ضرورت صرف ایک مخصوص نصاب میں نہیں بلکہ ہر نصاب میں محسوس کی گئی ہے،اس حوالے سے صرف دینی مدارس کے نصاب کو نشانہ بناکر ہرکوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرانااور ان نصابات سے بالکل صرف نظر کرناکہ جن میں تبدیلی کی بہت زیادہ گنجائش ہے، یقینا بڑی زیادتی ہے،خاص طور پر جب یہ نقشہ مدنظر رکھاجائے کہ کیوایس گلوبل یونیورسٹیز رینکنگ جوکہ ہرسال پوری دنیا کے جامعات کی درجہ بندی کوبیان اورمرتب کرتاہے اس کی ۲۰۲۱؁ء کی رینکنگ رپورٹ(QS World University Rankings 2021) کے مطابق دنیا کی ٹاپ ۳۵۰ یونیورسٹیوں میں وطن عزیز کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے جبکہ دوسری جانب اگردنیا کے ۱۰۰؍ٹاپ مدارس کو تلاش کیا جائے توبقول حضرت مولانا قاری محمدحنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم ان میں سے ۸۰؍ مدارس آپ کو پاکستان میں ملیں گے،اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے دنیا کے مختلف ممالک کے طلبہ کرام آج بھی پاکستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی مدارس سے فارغ التحصیل اورتربیت یافتہ فضلاء کرام دین کی خدمت میں مشغول ومصروف عمل ہیں جبکہ دوسری جانب عصری علوم کے حوالے سے شاذونادرہی آپ کو بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں تحصیل علم کیلئے مل پائیں بلکہ اس کے برعکس زیادہ تر پاکستانی طلبہ عصری علوم کی تحصیل کیلئے بیرون ممالک کی جامعات کا رخ کرتے ہیں اور وہاں تعلیم کے حصول کو اپنے لئے کامیابی کی کلیدسمجھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملکی اداروں میں پاکستانی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں بیرون ممالک کی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے اسی وجہ سے بعض اوقات اگرکسی ملازمت کے لئے کوئی اشتہار آتا ہے تو وہاں مطلوبہ معیار میں صراحت کے ساتھ اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس پوسٹ کے لئے پاکستانی جامعات سے پی ایچ ڈی کرنے والا یا بیرون ممالک کی جامعات سے ایم فل کرنے والا امیدوار اپلائی کرسکتا ہے۔
مذکورہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہ ہیں جن کی بناء پر پاکستانی طلباء بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ غیر ملکی طلباء پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کواپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں لیکن پاکستانی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ذہناً بالکل تیار نہیں ہوتے ؟ ان وجوہ کو جاننا اور ان کاحل نکالنا اشد ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک کوئی بھی غیرملکی طالب علم اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لئے پاکستان کا رخ نہیں کرے گا اوراسی طرح پاکستانی طلباء ہمیشہ انہی کوششوں میں لگے رہیں گے کہ کسی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔
اس واضح فرق کے باوجودہردورمیں ارباب اقتدار دینی مدارس کے نظام تعلیم اور نصاب میں اصلاحات کے حوالے سے بڑے فکرمند رہتے ہیں اور عصری اداروں کے نظام تعلیم اور نصاب جن میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اس سے بالکل صرف نظر کئے ہوئے ہیں،اس کی ایک زندہ مثال حال ہی میں دینی مدارس اور میٹرک وانٹربورڈ کے امتحانات کاسلسلہ ہے،دینی مدارس کے منتظمین نے موجودہ وبائی صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت ملکی سطح پر احتیاطی تدابیر(Standards Operating Procedures) پر مکمل عمل کرتے ہوئے سالانہ امتحانات کا انعقاد کیا اور کسی طالب علم کوبھی بغیر امتحان کے ترقی نہیں دی جبکہ دوسری جانب میٹرک اورانٹربورڈ کے نگران حضرات نے باوجودہرقسم کی سہولیات ، حکومتی سطح پر ہرممکنہ تعاون اور امتحانات کے انعقاد پر قادر ہونے کے بڑی سخاوت کا مظاہرہ کیا اورطلبہ کو بغیر امتحان کے پاس کیا ، حالانکہ بغیرامتحان ترقی دینے کا یہ طرز عمل موجودہ عالمی وبا میںپاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں اپنایاگیا ۔
ارباب اقتدار کی اس فکرمندی کے بعدمذکورہ صورتحال میں اب اس بات کی پہلے سے زیادہ اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ وطن عزیز کے دینی مدارس اور عصری جامعات کے نصابات کا تحقیقی اور تقابلی مطالعہ کیا جائے اور ان نصابات کوعالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی جامعات کے نصابات کے تناظر میں پرکھا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وطن عزیز کے دینی مدارس اور عصری جامعات کا نصاب کس سطح پر ہے؟اور ان میں بہتری کی کس حد تک گنجائش ہے؟چنانچہ بندہ نے استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے مشاورت کے بعد حضرت مدظلہم کے زیرسایہ پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لئے اس موضوع کا انتخاب کیا جس پر بفضلہ تعالی بندہ کو کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی،اس تقابلی مطالعہ کے لئے چارمشہور اورمستند پاکستانی جامعات کراچی یونیورسٹی ،پنجاب یونیورسٹی،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایم اے؍بی ایس اسلامیات کے نصابات اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے شہادۃ العالمیہ کے نصاب کا انتخاب کیا گیا جبکہ بین الاقوامی جامعات میں سے الجامعۃ الاسلامیہ المدینہ المنورۃ اور الجامعۃ الازہر قاہرہ مصر کے بی ایس علوم اسلامیہ کے نصاب کا انتخاب کیا گیا ،اس تقابلی مطالعہ کے کچھ نکات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔
اہم نوٹ:
اگرچہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے درس نظامی کے نصاب اور منتخب قومی اور بین الاقوامی جامعات کے علوم اسلامیہ کے شعبہ جات میں مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں تاہم ان میں سے کچھ مضامین ایسے ہیں جوکہ ان اداروں کے منتظمین نے اپنے ادارے کے اصول وضوابط اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب میں شامل کئے ہیں ،مثلا ً جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں ایک مضمون تاریخ المملکۃ العربیۃ السعودیہ کے عنوان سے شامل ہے، اب اس مضمون کو نہ تو پاکستانی جامعات نے اپنے نصاب میں شامل کیا ہے اور نہ ہی شامل کرنے کی ضرورت ہے ،البتہ جامعہ اسلامیہ کے نصاب میں اس کو شامل کرنا معقول ہے کیونکہ وہ سعودی عرب میں واقع ہے اور اس مضمون میں سعودی عرب کی تاریخ اور ثقافت پر بحث کی گئی ہے،اسی طرح بعض جامعات نے ایک مضمون کو مختلف عنوانات سے نصاب میں شامل کیا ہے، ایسے موقع پر تقابل کے لئے کسی ایک جامع عنوان کو لیا گیا ہے،لہذااس تقابلی مطالعہ کے لئے مذکورہ دس موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے ،یہ مضامین دینی علوم وفنون میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں ، موضوعات درج ذیل ہیں:
۱. قرآن مجیدمتن(حفظ؍ناظرہ)
۲. علوم القرآن۔
۳. ترجمہ وتفسیر قرآن مجید۔
۴. حدیث شریف۔
۵. علم الصرف والنحو
۶. علم فقہ واصول فقہ
۷. علم منطق
۸. عربی زبان ادب وبلاغت۔
۹. علم میراث
۱۰. علم الکلام۔
اب ان مضامین میں منتخب قومی اوربین الاقوامی جامعات اور وفاق المدارس العربیہ کے نصابات کے مابین تقابلی خاکہ پیش کیا جاتا ہے :
(۱) قرآن مجید (متن)
منتخب پاکستانی جامعات میں سے کسی بھی یونیورسٹی کے کلیہ علوم اسلامیہ کے شعبہ جات کے نصاب میں نہ تو قرآن مجید کی کوئی سورت بطورناظرہ طلباء کو پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی حفظ کروائی جاتی ہے جبکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت ملحقہ مدارس میں طلبہ کو ناظرہ قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے اور حفظ قرآن مجید بھی کرایا جاتا ہے،حفظ کی تکمیل پر وفاق کی طرف سے باقاعدہ طور پر حفاظ طلبہ کا امتحان لیا جاتا ہے اور کامیاب طلبہ کو حفظ کی سند بھی دی جاتی ہے۔
بین الاقوامی جامعات یعنی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے بی ایس لیول میں طلباء کوقرآن مجید کے ابتدائی دس پارے حفظ کروائے جاتے ہیں جبکہ جامعہ ازہر قاہرہ مصر میں مصری اور عربی طلباء کومکمل قرآن مجید حفظ کروایاجاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے طلباء کو آٹھ پارے حفظ کروائے جاتے ہیں۔
(۲) علوم القرآن
علوم القرآن کے موضوع پر منتخب پاکستانی جامعات کے نصاب میں زیادہ تر صرف تعارفی مواد شامل ہیں،ایم اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں علوم القرآن کے موضوع پر کسی قسم کی بحث نہیں کی گئی ہے جبکہ اس موضوع پرشعبہ علوم اسلامیہ کراچی یونیورسٹی کے نصاب میں ایک کورس اور کلیہ معارف اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نصاب میں دوکورسز شامل ہیں تاہم ان میں صرف تعارفی ابحاث ہیں۔البتہ کلیہ اصول الدین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے نصاب میں اس موضوع پر قدرے تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور چار کورسز نصاب میں شامل کئے گئے ہیں۔اس کے برعکس وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں علوم القرآن کے موضوع پر علامہ صابونی رحمہ اللہ کی تصنیف التبیان فی علوم القرآن شامل ہے جس میں علوم القرآن کے مختلف اقسام پر مفصل بحث کی گئی ہے ،اس کے علاوہ طلبہ کو ابتدائی درجات میں علم تجوید کا مفصل نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے،وفاق سے ملحق بعض مدارس میں علم قراآت کا مفصل کورس طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے۔الحمدللہ مادرعلمی جامعہ دارالعلوم کراچی میں بھی طلباء کو درس نظامی کے ضمن میں درجہ ثالثہ سے درجہ سادسہ تک چار سالوں میں قرا آت عشرہ مفصل طورپرپڑھایا جاتا ہے ،اس کے علاوہ درس نظامی سے فراغت کے بعددوسالہ تخصص فی القراآت بھی کروایا جاتا ہے جس میں علم قرا آت کے مختلف موضوعات پر مفصل تحقیق کی جاتی ہے۔
بین الاقوامی جامعات میں سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں علم قرا آت مفصل طورپرشامل ہے، اس کے علاوہ اعجاز قرآن پر بھی مفصل بحث نصاب کا حصہ ہے جبکہ جامعہ ازہر قاہرہ مصر کے نصاب میں علم تجوید،علوم القرآن ،اعجاز قرآن اور متشابہات قرآن پر مناسب بحث کی گئی ہے۔
(۳) ترجمہ وتفسیر قرآن مجید
منتخب پاکستانی جامعات میں قرآن مجید کی بعض منتخب سورتوں کا تفسیری مطالعہ نصاب میں شامل کیا گیا ہے،طلبہ سے ان منتخب سورتوں کی تفسیر کے مطالعہ کی روشنی میں امتحان لیا جاتا ہے جبکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں درجہ ثانیہ سے درجہ خامسہ تک چار سال کے دورانیہ میں مکمل قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیرطلبہ کو درساً پڑھایا جاتا ہے اور اس کے بعد درجہ سادسہ میں مکمل تفسیر جلالین طلبہ کو درساً پڑھائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ درجہ سابعہ (موقوف علیہ )میں تفسیر بیضاوی کا منتخب حصہ طلبہ کو درساً پڑھایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی جامعات میں سے جامعہ ازہر قاہرہ ،مصرکے نصاب میں مکمل قرآن مجید کی تفسیر شامل ہے جبکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں قرآن مجید کی چند منتخب بڑی سورتوں کی تفسیر شامل ہے جوکہ تقریباً چار پارے بنتے ہیں۔
(۴) حدیث شریف
حدیث شریف کے عنوان سے کلیہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں فواد عبدالباقی کی کتاب اللوؤ و المرجان کے ۷۰؍ ابواب کی منتخب احادیث شامل ہیں،شعبہ ا صول الدین کلیہ معارف اسلامیہ کراچی یونیورسٹی کے نصاب میں صحاح ستہ کے ۸۳؍ ابواب کی منتخب احادیث شامل ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ حدیث کے نصاب میں احادیث کے موضوع پر لکھی گئی ۲۶؍ مختلف کتابوں کے منتخب ابواب سے احادیث یکجا جمع کی گئی ہیں اور ایک کتاب مطالعہ حدیث کے عنوان سے مرتب کی گئی ہے، اس کتاب کا مطالعہ نصاب میں شامل ہے۔،جبکہ کلیہ اصول الدین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ حدیث کے نصاب میں صحاح ستہ کے ۱۵۷ منتخب ابواب کی احادیث شامل ہیں۔
بین الاقوامی جامعات میں سے کلیہ حدیث جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب نیل الاوطارسے۸۶۵ حدیثیں اور صحاح ستہ سے ۷۰۴ حدیثیں( کل ۱۵۶۹حدیثیں) نصاب میں شامل ہیں ،اس کے علاوہ علامہ ابن الہادی کی کتاب المحرر فی الحدیث کی ۴۱۱ حدیثیں طلبہ کو حفظ کروائی جاتی ہیں جبکہ کلیہ اصول الدین جامعہ ازہر قاہرہ مصر کے شعبہ حدیث کے نصاب میں صحاح ستہ کی۵۰ حدیثوں کی مفصل تشریح اور ۴۳ مختلف موضوعات پردوسری کتب احادیث سے لی گئی حدیثوں کی تشریح شامل ہے۔
منتخب قومی اوربین الاقوامی جامعات کے مقابلے میں حدیث شریف کے موضوع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے درجہ عالمیہ کا نصاب انتہائی مفصل اور جامع ہے،یہ نصاب اس قدر مثالی اورجامع ہے کہ منتخب قومی اور بین الاقوامی جامعات کے علاوہ اتحاد تنظیمات المدارس پاکستان کے بقیہ چاروں بورڈز کے حدیث شریف کے نصا بات بھی اس نصاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے عالمیہ کے نصاب میں صحاح ستہ اور مشکوۃ المصابیح طلبہ کو مکمل درساً پڑھائی جاتی ہیں جبکہ موطا امام مالک ،موطا امام محمد،شرح معانی الآثار کے منتخب ابواب طلبہ کو درساً پڑھائے جاتے ہیں،گویا وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں ہر موضوع سے متعلق احادیثیں شامل ہیں۔
(۵)علم الصرف والنحو
علم الصرف اور علم النحو کے موضوع پر کوئی بھی کورس نہ تومستقل طورپرمنتخب پاکستانی جامعات کے نصاب میں شامل ہے اور نہ ہی ان موضوعات پر کسی اور مضمون کے تحت ضمناً بحث کی گئی ہے،حالانکہ وطن عزیزکی جامعات کے علوم اسلامیہ کے نصاب میں ان دونوں موضوعات پرمفصل ابحاث شامل کرناانتہائی ضروری ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں علوم دراصل عربی گرائمر کے قبیل سے ہیں اور دینی علوم کا وسیع ترحصہ عربی زبان میں پایاجاتا ہے،بنا بریں جب تک ان دونوں علوم کے متعلق طلبہ کو آگاہی حاصل نہیں ہوگی اس وقت تک عربی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں کو سمجھنا تو کجا عربی عبارت کو پڑھنا بھی ان طلبہ کے لئے مشکل ہوگا۔
پاکستانی جامعات کی طرح ان دونوں موضوعات پر جامعہ ازہر کے نصاب میں بھی کوئی کورس شامل نہیں ہے، تاہم چونکہ وہاں کے باسیوں کی مادری زبان عربی ہے جس کی وجہ سے عربی زبان پر ان کو مکمل عبورحاصل ہے ،بنابریں جامعہ ازہر کے نصاب میں ان مضامین کو شامل نہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ،البتہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں ان دونوں موضوعات پر ایک ایک کورس نصاب میں شامل کیا گیا ہے جس میں انتہائی اختصار کے ساتھ صرف ونحو کے قواعدپر روشنی ڈالی گئی ہے۔
منتخب قومی اوربین الاقوامی جامعات کے برعکس وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ابتدائی چار سالہ نصاب(درجہ اولی سے درجہ رابعہ تک) میں ان دونوں موضوعات پر کافی مفصل بحث کی گئی ہے اورکم وبیش سولہ کتابیں ان دونوں موضوعات پر طلبہ کو درساً پڑھائی جاتی ہیں اور ان کا اجراء بھی کرایا جاتا ہے۔
(۶)علم فقہ واصول فقہ
علم فقہ اور اس کے اصول بنیادی اور اہم مضامین ہیں ،ان کے متعلق جاننا ایک طالب علم کے لئے عموماً اورعلوم اسلامیہ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے خاص طورپربہت ضروری ہے،پاکستانی جامعات کے نصاب میں اس موضوع پر انتہائی کم مواد شامل کیاگیا ہے،کلیہ اصول الدین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکے چھ شعبہ جات میں سے کسی بھی شعبہ کے نصاب میں علم فقہ پر کوئی کورس شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ اصول فقہ کے موضوع پر صرف ایک کورس نصاب میں شامل ہے،کراچی یونیورسٹی کے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں فقہ اور اصول فقہ پر ایک ایک کورس نصاب میں شامل ہے تاہم ان میں فقہ کے چندموضوعات پر مختصر بحث کی گئی ہے اور زیادہ تر علم فقہ کے تاریخی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں اصول فقہ پر مستقل طورپرکوئی کورس نصاب میں شامل نہیں ہے ،صرف ضمنی طور پرعلم فقہ کے موضوع کے تحت اصول فقہ پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے،علم فقہ پر اگر چہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نصاب میں کچھ موضوعات پر مفصل بحث کی گئی ہے تاہم وہاں تعلیمی سلسلہ صرف مطالعہ تک محدودہے جوکہ حقیقت میں طالب علم کی صوابدید پر ہوتا ہے۔
علم فقہ اور اصول فقہ پر بین الاقوامی جامعات میں سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا نصاب انتہائی مفصل اور جامع ہے ،جامعہ اسلامیہ کے نصاب میں علامہ ابن رشد رحمہ اللہ کی کتاب بدایۃ المجتہدکا مفصل حصہ طلباء کو درساً پڑھایاجاتاہے جس کے بعد طلباء کی استعداد میں فقہی اعتبار سے نمایاں بہتری آجاتی ہے۔اسی طرح اصول فقہ سے متعلق دو مضامین اصول الفقہ اورالقواعد الفقہیہ کے عنوان سے نصاب میں شامل ہیں ،ان دونوں مضامین کا نصاب بھی ماشاء اللہ انتہائی مفصل اور جامع ہے،اوراگریہ بات کہی جائے تو اس میں شاید کوئی مبالغہ نہ ہو کہ کلیۃ الشرعیہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں اصول فقہ کے تمام ضروری اور اہم مباحث پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
منتخب قومی اور بین الاقوامی جامعات کے مقابلے میں علم فقہ اور اصول فقہ کے موضوع پروفاق المدارس العربیہ کا نصاب نہ صرف یہ کہ زیادہ مفصل اور جامع ہے بلکہ ایک مثالی نصاب ہے،علم فقہ کے موضوع پر قدوری،کنزالدقائق،شرح وقایہ سے لیکر ہدایہ کی چاروں جلدیں جبکہ اصول فقہ پر اصول الشاشی،نورالانوار،حسامی سے لیکر توضیح وتلویح تک مفصل کتابیں نصاب میں شامل ہیں،ان کتابوں میں علم فقہ اور اصول فقہ کے ہرموضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جس سے طلبہ میں ایک خاص فقہی ملکہ پیدا ہوجاتاہے۔
(۷) علم منطق
منتخب پاکستانی جامعات میں سے صرف کلیہ اصول الدین ،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ عقیدہ وفلسفہ کے نصاب میں علم منطق کے حوالے سے تین کورسز المنطق القدیم،المنطق الجدید ومناہج البحث اورنقدالمنطق القدیم کے عنوانات سے شامل ہیں، اس کے علاوہ کسی بھی جامعہ کے نصاب میں علم منطق کے موضوع پر کوئی کورس شامل نہیں ہے،جبکہ بین الاقوامی جامعات میں سے صرف کلیہ اصول الدین جامعہ ازہر قاہرہ مصر کے شعبہ عقیدہ وفلسفہ کے نصاب میں علم منطق کے موضوع پر ایک کورس المنطق الحدیث ومناہج البحث کے عنوان سے شامل ہے۔
علم منطق کے موضوع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں درجہ ثانیہ سے درجہ رابعہ تک تین سالوں میں پانچ کتابیں طلباء کو درساً پڑھائی جاتی ہیں جن میں علم منطق کے تمام موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
(۸) عربی زبان وادب
عربی زبان وادب کے عنوان سے منتخب پاکستانی جامعات میں سے کراچی یونیورسٹی اورپنجاب یونیورسٹی کے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں ایک ایک کورس جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نصاب میں دو کورسز شامل کئے گئے ہیں ،جن میں صرف عربی زبان کی ابتدائی تعارفی ابحاث پر کچھ مختصر روشنی ڈالی گئی ہے اور وہ بھی زیادہ ترمطالعہ کی حد تک محدود ہے،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اگرچہ عربی اور انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے لیکن عربی ادب پر کوئی بھی کورس ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل نہیں ہے،اس کے برعکس وفاق المدارس العربیہ سے الحاق شدہ مدارس میں جہاں قسم العربی کے طلبہ کو عربی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ درجہ اولیٰ سے لیکر درجہ سادسہ تک چھ سالہ نصاب میں ہر سال عربی زبان وادب پر کوئی نہ کوئی کتاب نصاب کاجزہے جوکہ طلبہ کو درساً پڑھائی جاتی ہے اور اجراء بھی کرایا جاتا ہے۔
(۹) علم میراث
علم میراث کے موضوع پر پاکستانی جامعات کے نصاب میں کوئی کورس شامل نہیں ہے جبکہ بین الاقوامی جامعات میں سے صرف جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب میں اس موضوع پر ایک کورس نصاب میں شامل کیا گیا ہے،اسی طرح وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں بھی فن میراث پر ایک کتاب سراجی کے نام سے نصاب میں شامل ہے۔
(۱۰) علم الکلام
منتخب پاکستانی جامعات میں سے صرف کلیہ اصول الدین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ عقیدہ وفلسفہ کے نصاب میں علم الکلام پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے ، اس کے نصاب میں علم کلام کا مفصل تعارف اور علم کلام کے ذیلی موضوعات یعنی المقدمات والالھیات، النبوات والسمعیات اور قضایاونصوص کے موضوعات پر مفصل بحث کی گئی ہے،اس کے علاوہ بقیہ تینوں پاکستانی جامعات اور دونوں بین الاقوامی جامعات کے نصاب میں علم کلام کے موضوع پر بالکل بحث نہیں ہوئی ہے،جبکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں علم الکلام کے موضوع پر ایک کتاب شرح عقائد کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے جس میں علم کلام کے مختلف موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
خلاصہ بحث
وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور منتخب قومی و بین الاقوامی جامعات کے علوم اسلامیہ کے نصابات کا تحقیقی اور تقابلی مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ اخذہوا کہ دینی علوم کے حوالے سے جامعات کے مقابلے میں مدارس کا نصاب ہرپہلو سے زیادہ مفصل اور جامع ہے جس کی تفصیل ماقبل میں بیان کردی گئی ہے ،اس کے باوجود مدارس سے فارغ التحصیل طلباء جب اپنی سند کا معادلہ ہائر ایجوکیشن کے توسط سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری سے کرواتے ہیں تو اس معادلے کے معاملہ میں انہیں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ وطن عزیز پر اقتدار میں آنے والی بعض پارٹیوں کے عہدیداران اپنے دور حکومت میں مدارس کی اسناد کو ایم اے اسلامیات کے مساوی ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوتے ، حالانکہ مدارس کے طلبہ عصری جامعات کے طلبہ کے مقابلے میں زیادہ مفصل اورجامع علوم سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل بعض مضامین مدارس کے بالکل ابتدائی درجات میں طلباء کو پڑھائے جاتے ہیں ،اس سلسلے میں ارباب اقتدار سے درخواست ہے کہ دینی مدارس کے بجائے عصری جامعات کے نصاب اور نظام تعلیم کو بہتر اور جامع بنانے پرتوجہ دیں اور انہیں بین الاقوامی جامعات کے طرز پر مرتب کیا جائے کیونکہ درحقیقت فی الحال یہ ادارے اصلاحات کے زیادہ مستحق ہیں،جہاں تک دینی مدارس کی بات ہے تواس سلسلے میں خاص طور پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان مدارس کے قیام کا مقصد سائنس دان،ریاضی دان اور انجینئرزبنانا نہیں ہے بلکہ مدارس کے قیام کا حقیقی مقصدایسے صاحب استعداد علماء پیدا کرنا ہے جو قرآن وسنت اور ان کے متعلقہ علوم میں ماہرانہ بصیرت کے حامل ہوں، بالفاظ دیگر دینی مدارس کا مقصد اسلامی علوم کے ماہرین پیدا کرنا ہے۔لہذا جس طرح کسی لاء کالج کے منتظمین سے یہ مطالبہ کرناکہ یہاں سے انجینئرزپیداہونے چاہئیں یا کسی میڈیکل کالج کے منتظمین سے یہ مطالبہ کرنا کہ یہاں سے قانون کے ماہرین پیدا ہونے چاہئیں،درست نہیں ، اسی طرح مدارس کے منتظمین سے یہ مطالبہ کرنا کہ یہاں سے سائنس دان،ریاضی دان اور انجینئر زبھی پیدا ہونے چاہئیں بالکل درست نہیں ، کیونکہ ہر ادارے کے قیام کے مقاصد بالکل الگ ہوتے ہیں ،اور جو قیام کے مقاصد ہوںگے اسی کے ہم رنگ افراد ان اداروںمیں پیداہوں گے۔
اسی طرح ارباب اختیارسے ایک دردمندانہ درخواست یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو مستقل بورڈ کا درجہ دیا جائے اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے الحاق شدہ مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کی ڈگریوں کو مستقل طورپر ایم اے اسلامیات اورایم اے عربی کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے جس کی وجہ سے یہ طلبہ مزید الجھنوں سے محفوظ رہیں گے،ویسے بھی عقلی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی چیز کو اپنے مافوق سے مساوی کرنے کی کوشش کی جائے نہ کہ ماتحت سے۔

٭٭٭٭٭٭

مقالات ومضامین