>
جامعہ دارالعلوم کراچی کا ترجمان ماہنامہ البلاغ اردو
جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ دارالتصنیف کی طرف سے اردو زبان میں علمی، ادبی، تحقیقی اور تاریخی مضامین پر مشتمل یہ ماہانہ رسالہ شائع کیاجاتاہے

یوم استقلال کی تقریب سے خطاب 2020

خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم

خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عاصم بٹگرامی، دورئہ حدیث

یوم استقلال کی تقریب سے خطاب

اس سال ۱۴؍اگست کو جمعہ کا دن تھا ، اس لئے حسب ہدایت رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم یوم استقلال کی تقریب جمعرات ۱۳؍اگست ۲۰۲۰ ؁ ء کو منعقد کی گئی جس میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے تمام تعلیمی شعبوں ، دارالقرآن ، مدرسہ ابتدائیہ وثانویہ ، حراء فاؤنڈیشن اسکول ، شعبہ درس نظامی کے اساتذہ و طلبہ نیز جامعہ کے تمام انتظامی شعبوں کے ناظمین بھی شریک تھے ۔
رئیس الجامعہ نے اکابر اساتذہ کے ہمراہ پرچم کشائی فرمائی اور پھر اپنے نصیحت آمیز خطاب سے حاضرین کو مستفید فرمایا ۔یہ بصیرت افروز خطاب ہدیۂ قارئین ہے ۔(ادارہ )

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد !
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قال اللہ تعالیٰ ! انما المؤمنون اخوۃ ۔

پاکستان کے یوم آزادی اور یوم استقلال کی تقریب ہے ، جب اس موضوع پر بات کرنے کی نوبت آتی ہے تو فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا بات کریں کیا نہ کریں ، ایک ہجوم ہوتا ہے بعض مضامین کا۔
خاص طورسے میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کی سرزمین میں ___جب کہ میں دارالعلوم دیوبندکا طالب علم تھا ___قرآن کریم حفظ کرتا تھا میری عمر کا گیارہواں سال تھا ۔
جب تحریک پاکستان چل رہی تھی ، پورا ہندوستان "پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد” کے نعروں سے گونج رہا تھا ، اس زمانے میں دارالعلوم کی سرزمین میں رہتے ہوئے بھی میرے دل و دماغ میں پاکستان کا عشق جاگزیں تھا اور اب بھی جب پاکستان کا نام آتا ہے تو میں اپنے جذبات کا کچھ اندازہ نہیں کرسکتا ، بیان نہیں کرسکتا کہ میرے جذبات کی کیفیت کیا ہوتی ہے ۔
میری عمر کے دسویں سال میں تحریک چل رہی تھی اورپاکستان بنا ، پاکستان جب بنا ،ہم نے ہجرت کی تو میری عمر کابارہواں سال تھا ، اب سے بہتّر سال پہلے ، پاکستان آج سے ۷۲ سال پہلے بنا تھا ، آج بھی وہ خوشگوار یاد میں بھلا نہیں سکتا ۔ زندگی میں اتنا خوشگوار خوشیوں کا موقع مجھے یاد نہیں پڑتا ۔ سوائے چند خوشیوں کے، ان میں ایک خوشی یہ ہے کہ پاکستان بناتھا۔ ہماری خوشیوں کا کیا حال تھا ، بیان نہیں کرسکتا۔میں شاید پہلے بھی بار بار کہتا رہا ہوں اورکہہ رہاہوں کہ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ اور اساتذہ میں تحریک پاکستان کا کام ہورہا تھا ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، قائد اعظم اور حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے نظریات کے مطابق ، علامہ اقبال صاحب رحمہ اللہ کے نظریات کے مطابق وہاں تحریک چل رہی تھی ، ہمارے والد ماجد رحمہ اللہ دن رات اس تحریک میں لگے ہوئے تھے اور پورے ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھر کر پاکستان کی تبلیغ کرتے تھے ، مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستان میں ایک قوم ہے یا دو قومیں ہیں ، ایک قومی نظریہ الگ ہے اور دو قومی نظریہ الگ ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح ، حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ اور علامہ اقبال رحمہ اللہ نے مل کر متفقہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں ، دو ملتیں ہیں ، ایک ملت کافروں کی ہے، ایک ملت مسلمانوں کی ہے ۔ (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ :الحجرات:۱۰) اور اخوت اسلامیہ کا تعلق کسی خاص سرزمین سے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ یہ بات ہے تو پاکستان میں ،جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے وہاں اقتدار بھی مسلمانوں کا ہونا چاہئے اور جہاں اکثریت مسلمانوں کی نہیں ہے ،وہاں مسلمان اگرچہ رہیں لیکن ان کے لئے ایک وطن عزیز پاک وطن اور آزاد وطن موجود ہوگا کہ جب کبھی ہندو ان کو پریشان کریں تو پاکستان ہجرت کرسکیں، چنانچہ اسی کے مطابق اللہ نے پاکستان بنوادیا ، 14 ؍ اگست رات کو ہم سوئے تھے انگریزی حکومت کے دور میں اگلے دن جب ہم اٹھے تو پاکستان اور ہندوستان الگ الگ آزاد ہوچکے تھے ۔ ہم دیوبند میں تھے، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ قائد اعظم کے ساتھ سفر کرکے کراچی تشریف لے آئے تھے ، یہاں گورنر جنرل ہاوس تھا، آج یہاں پارلیمنٹ ہاؤس ہے ، اسمبلی ہاؤس ہے ، کراچی میں یہ گورنر جنرل ہاؤس کہلاتاتھا ، کراچی دارالحکومت بنا پاکستان کا ، قائداعظم نے علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ پاکستان میں سب سے پہلے آزادی کا پرچم آپ اپنے دست مبارک سے لہرائیں۔
چنانچہ آزادی کا پرچم کراچی میں ،مغربی پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ للہ نے لہرایا اور قائد اعظم ہی کی درخواست پر ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے لہرایا ۔ اس واسطے یہ پرچم جس کی ہم نے آج پرچم کشائی کی ہے یہ ہمارے بزرگوں کی امانت ہے ، یہ معمولی پرچم نہیں ہے ، یہ پرچم انہوں نے لا الہ الا اللہ کے نام پربلند کیاہے ۔ پاکستان کا نعرہ یہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیالا الہ الا اللہ، یہ پرچم لا الہ الا اللہ کا پرچم ہے ، اس میں آپ دیکھیں گے کہ چاند ہے اور ستارہ ہے، کسی مقام کی تصویر نہیں ہے ۔ کسی اور رنگ کی تصویر نہیں ہے، رنگ ہے تو گنبد خضری کا اور چانداور ستارے پوری دنیا کی نمائندگی کررہے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں ، تاجدار دو عالم سر ور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں،(اللہ تعالیٰ اس پاکستان کی حفاظت فرمائے) اور پھر جب ہجرت ہوئی پاکستان کی طرف تو ایک کروڑ مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں ، ہندوؤں نے قتل عام شروع کردیا مسلمانوں کا اور ان کو مجبوراً ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا ، جس کے لئے انہوں نے مصیبتیں جھیلیں ، المناک پریشانیوں میں وقت گزارے ۔
لیکن جب اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان بنا اور بنتا ہی چلا گیا تو رفتہ رفتہ طاقتور بنا۔ وہاں مشہور یہ ہورہا تھا، جو پاکستان کے مخالفین تھے ، وہ کہتے تھے کہ پاکستان تو ننگا پاکستان ہے ، بھوکا پاکستان ہے اور پیا سا پاکستان ہے ، نہ وہاں کپڑے ہوں گے ، نہ کھانے کو کچھ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سب کچھ دیا اور یہاں مہاجرین نے آکر کارخانے قائم کئے ، کپڑا بھی اعلیٰ سے اعلیٰ بنایا جانے لگا اور دوسری بھی تمام چیزیں پاکستان میں بننے لگیں ۔ ملک دن بدن ترقی کرتا رہا اور انڈیا کے لئے الحمدللہ ہمیشہ چیلنج بنارہا ، پاکستان میں آنے کے بعد انڈیا نے ہمیں پریشان کیا، طرح طرح کے واقعات پیش آئے ، لیکن افواج پاکستان نے ہمیشہ ان کے دانت کھٹے کئے ، رن کچھ کے علاقے میں جہاد ہوا ، مجاہدین نے شکست سے دوچار کیا ، ۶۵؁ ء میں جہاد ہوا ، ان دونوں جہادوں میںہماری خواہش تھی کہ ہم خود اس میں شریک ہوں ، اس جہاد میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ ہم حج یا عمرہ کے لئے گئے ہوئے تھے ، وہ جہاد ایسا تھا کہ پورے پاکستان کا ہر فرد اس میں شریک تھا۔بچہ ، بوڑھا ، جوان ، عورتیں ، مرد ، مالدار ، غریب سب اس میں لگ گئے تھے ، وہ جنگ ۱۷ دن رہی ، اس کی برکات ایسی تھیں کہ پورے پاکستان میں کوئی چوری کا واقعہ پیش نہیں آیاتھا ، یہ جہاد کی برکات تھیں لیکن بعد کے لوگوں نے پاکستان کو اس حالت میں پہنچایا ہے، یہ حالت ہمارے لئے دردناک ہے ، افسوسناک ہے ، شرمناک ہے ، پاکستان جب بنا تو پوری دنیا کے مسلمانوں نے یہ محسوس کیا تھا کہ یہ ہمارا امام بنا ہے کیونکہ یہاں آبادی بھی اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ پاکستان کی تھی ، انڈونیشیا بھی نمبر دو پر تھا ، مغربی اور مشرقی پاکستان کی آبادی ملاکر سب سے زیادہ تھی ، لیکن بعد میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے، یہ پوچھا جاتا ہے کہ حالات کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ کیا ہے ، جوا ب یہ ہے کہ قرآن نے کہاتھا : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات: ۱۰)۔ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، بھائی بھائی بن جاؤ ، آپس کے جھگڑے چھوڑدو ، آج حالت یہ ہے کہ عدالتیں آپس میں لڑرہی ہیں ، سیاسی لیڈر اور وزراء آپس میں لڑ رہے ہیں اور جو ذمہ داریاں افسران کو سپرد کی گئی ہیں پوری سہولیات دی گئی ہیں لیکن حالیہ برسات کے موقع پران سے اتنا کام بھی نہیں ہوا کہ برساتی نالوں کو صاف کرکے سڑکوں کو قابل استعمال بنایاجاتا ۔
بارش ہوتے ہی ہماری سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں ، چلنا پھر نا مشکل ہوجاتا ہے ، لوگ پاکستان کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں ، حالات کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک حلال کھانے لگے ، ہر ایک اپنی ڈیوٹی انجام دینے لگے ، کام چوری سے باز آجائے اور اتباع سنت سے کام لیں ۔
دو قومی نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں ، بالکل نہیں ۔ان کے ساتھ ہماری دوستی بھی ہوسکتی ہے ، معاہدے بھی ہوسکتے ہیں ، تجارت بھی ہوسکتی ہے لیکن بھائی نہیں ہیں، مسلمان کابھائی صرف مسلمان ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کی اتباع کی توفیق عطافرمائے اور یوم استقلال کو حالات کی بہتری کا ذریعہ بنادے اور آج کے دن کو پاکستان کی بہتری کے آغاز کا دن بنادے ۔آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More