حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ،دامت برکاتہم
نائب رئیس _________ _ جامعہ دارالعلوم کراچی
یا دیں
(چونتیسویں قسط)
حضرت معاویہ ؓ اور تاریخی حقائق
جماعت اسلامی اور مولانا مودودی رحمۃ اﷲعلیہ کے بارے میں حضرت والدصاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا معتدل موقف اور اپنے طرزعمل کے بارے میں تجربات میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔ تقریباً ۱۹۶۹ ء میں ان کی نئی کتاب "خلافت وملوکیت” منظر عام پر آئی ، تو اُس پر چاروں طرف سے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا۔لیکن خود مجھے اُس کتاب کے مطالعے کا موقع نہیں مل سکا تھا ۔ اسی زمانے میں میرے بڑے بھائی جان جناب محمد زکی کیفی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کراچی تشریف لائے ، تو انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ انہوں نے یہ کتاب پڑھی ہے، اور اُس وقت سے وہ اضطراب میں ہیں ، کیونکہ اُس میں حضرت عثمان ؓ، حضرت معاویہؒ اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر اس انداز سے تنقید کی گئی ہے جو تنقیص اور توہین کے زمرے میں آتی ہے ۔ بھائی جان مرحوم کا جماعت اسلامی کے مختلف حضرات، بلکہ خود مولانا مودودی ؒ سے ملنا جُلنا رہتا تھا، اوران سے اختلافات کے باوجود اُن کا رویہ ان کے خلاف اتنا تشدد آمیزکبھی نہ تھا، لیکن اس بار وہ بہت متأثر تھے کہ اب صحابہؒ کے بارے میں ان کا طرزعمل حدود سے بہت متجاوز ہو رہا ہے ۔ اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس پر علمی اندازمیں تبصرہ لکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ وہ اپنے ساتھ "خلافت وملوکیت” نامی کتاب بھی لیکر آئے تھے ۔وہ کتاب انہوں نے مجھے دی کہ میں اس کا مطالعہ کرکے دیکھوں۔چنانچہ اُس رات میں نے اس کا مطالعہ کیا، تو واقعی کتاب میں بعض صحابہ، اور خاص طورپر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں اتنی جارحیت نظر آئی کہ دل کو شدید صدمہ پہنچا ، اور اگلے ہی دن میں نے ان کتابوں کی مراجعت شروع کردی جن کی بنیادپران پر یہ الزامات لگائے گئے تھے ۔کتابوں کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ بعض جگہ تو حوالے بھی غلط تھے ، اور بعض جگہ چھوٹی سی بات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا دیا گیا تھا ۔ چنانچہ میں نے ان اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کیلئے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جو ماہنامہ البلاغ میں قسط وار شائع ہوا ۔ابھی اُس کی چند قسطیں ہی شائع ہوئی تھیں کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے "ترجمان القرآن” میں مولانا کے معاون خصوصی جناب ملک غلام علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کا تند وتیز جواب شروع فرمادیا۔ میرا مضمون مکمل ہوا، تو اُس کے بعد بھی ترجمان القرآن میں میرے مضامین کی تردید اور مولانا مودودیؒ کے دفاع کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔
چونکہ طبیعت بحث ومباحثے سے ہمیشہ دوررہی ہے ، اس لئے جواب الجواب لکھنے کی طرف شروع میں دل مائل نہیں تھا ، لیکن متعدد احباب نے توجہ دلائی کہ جناب ملک صاحب کے جوابی مضمون سے کچھ نئی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ، اس لئے کم ازکم ایک مرتبہ اس کا جواب آنا چاہئے ۔ آخرکار میں نے فیصلہ کیا کہ بحث کا سلسلہ مدت تک جاری رکھنے کے بجائے البلاغ کے ایک ہی شمارے میں جناب ملک صاحب کے مضمون پر تبصرہ کردیا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اور البلاغ کا ایک شمارہ (ذوالحجہ ۱۳۹۰ھ ) اسی تبصرے کے لئے خاص کرکے شائع کیا گیا، اور اُس میں یہ واضح کردیا گیا کہ یہ اس موضوع پر میری آخری تحریر ہوگی، اور اب جواب الجواب کا سلسلہ نہیں ہوگا۔ اہل علم دونوں مضامین کا مقابلہ کرکے خود فیصلہ کرسکتے ہیں ۔پھر دونوں مضامین کا مجموعہ "حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق ” کے نام سے شائع ہوا۔اور اہل فکرونظر نے نہ جانے کتنے خطوط میں مجھے لکھا کہ اس کتاب کو پڑھکر دل سے شکوک وشبہات کے بہت سے کانٹے نکل گئے۔خود جماعت اسلامی کے بعض منصف مزاج حضرات نے بھی اپنی خوشی کااظہار فرمایا۔بھائی جان مرحوم چونکہ میرے اس سارے مقالے کے اصل محرک تھے ، اس لئے وہ اس بحث کے ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھتے تھے ۔ اس شمارے کی اشاعت پر انہوں نے خصوصی مسرت کا اظہار کرکے ہمت افزائی فرمائی۔
بعد میں جناب ملک صاحب مرحوم نے اس کا بھی جواب دیا، اور ان کا جواب”خلافت وملوکیت پر تبصروں کا جائزہ” کے نام سے شائع ہوا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا تھا کہ یہ اس موضوع پر میری آخری تحریر ہوگی ، اس لئے میں نے اس سلسلے کو مزید دراز کرنے کے بجائے انصاف پسند قارئین پر چھوڑ دیا۔
لیکن ایک عرصے کے بعد ایک اور صاحب نے ان کی اس کتاب کا جواب لکھ کر مجھے بھیجا جو بعد میں "حضرت معاویہؓ اور تاریخی روایات”کے نام سے شائع ہوا۔
یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم کی پیپلز پارٹی آندھی طوفان کی طرح ملک پر چھارہی تھی ، اور ملک میں سوشلزم کی تحریک اپنے شباب پر تھی ، اور اتفاق سے بعض علماء کرام بھی اس خیال سے اس کے ساتھ ہوگئے تھے کہ سوشلزم کا نعرہ غریبوں کی حمایت میں ہے، اور اس کی مخالفت کرنے سے اسلام کے بارے میں غلط تأثر جائے گا ۔دوسری طرف اکابرعلماء کرام جن میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی داخل تھے ، ان کا خیال یہ تھا کہ سوشلزم اسی کمیونزم کی ابتدائی شکل ہے جس نے روسی اور چینی ترکستان میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ، اور دینی شعائر کا نام ہی مٹا دیا، اس لئے وقت کے چلے ہوئے نعروں کے بجائے ہمیں اسلام کے معاشی احکام کی وضاحت کرکے اس کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہئے اور سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کی مخالفت کرنی چاہئے۔
اس ماحول میں جبکہ علماء کا یہ اختلاف کسی قدر سامنے آگیا تھا ، ایک دن مجلس تحفظ ختم نبوت کے ممتاز رہنما حضرت مولانا محمد علی جالندھری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے مجلس کے دفتر میں طلب فرمایا جو اُس وقت مولوی مسافرخانہ کے علاقے میں واقع تھا ۔ میں حاضر ہوا ، تو انہوں نے اس موضوع پر کافی تفصیلی بات کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے آزادیٔ ہند کے سلسلے میں نیشنلسٹ لوگوں کا ساتھ دیا ، اور ان کے ساتھ جیلیں کاٹیں ، یہ نیشنلسٹ لوگ ساتھ ساتھ سوشلسٹ نظریات کے بھی حامی تھے ۔ان کی باتوں سے یہ لگتا تھا کہ ان کو اصل پرخاش اُس زمیندارانہ جاگیردارانہ نظام سے ہے جس نے غریب کسانوں پر ظلم توڑے ہیں ، اس سلسلے میں اُنہوں نے کئی دلدوز واقعات بھی سُنائے ،اور فرمایا کہ ان حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور علماء کو ان لوگوں کے مسائل پر غور کرکے ان کا کوئی حل شریعت کی روشنی میں نکالنا چاہئے ۔اس وقت سوشلزم کے سلسلے میں علماء کے اختلاف کی جو فضا بن رہی ہے ، اُس کو ختم کرنے کے لئے بھی مجھے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے ذی علم حضرات ان مسائل پر غور کرنے کے لئے کوئی مجلس منعقد کریں ، اور اُن میں غریبوں کے یہ مسائل زیر بحث لاکر اُن کا شرعی حل تلاش کریں ، تاکہ سوشلزم کی نری مخالفت کے بجائے ایک متبادل حل لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنے والد ماجد کے پاس جاکر اُن تک میری یہ بات پہنچائیں ، اور اُن سے کہیں کہ وہ ایسی مجلس منعقد فرمائیں ۔دوسری طرف میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی فرمائش کروں گا۔
ان کی یہ دردمندانہ تجویز نہایت معقول تھی ، اس لئے جب میں نے حضرت والد صاحبؒ سے اس کا ذکر کیا ، تو انہوں نے اُس کا خیر مقدم فرمایا ۔ فقہی مسائل پر غور کرنے کے لئے حضرت والد صاحبؒ نے پہلے ہی حضرت بنوری قدس سرہ کے ساتھ مل کر "مجلس تحقیق مسائل حاضرہ” قائم فرمائی ہوئی تھی ،آپ نے فرمایا کہ اُسی کا اجلاس بلا لیا جائے ، اور اُس میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ کو بھی دعوت دی جائے۔البتہ چونکہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت بستر علالت پر تھے ، اس لئے فرمایا کہ میری طرف سے تم دونوں بھائی (یعنی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مدظلہم اور میں )مجلس میں شریک ہوں ، اور مجھے مجلس کی روداد بتاکر مشورے لیتے رہیں۔ چنانچہ حضرت بنوری قدس سرہ نے اپنے مدرسے میں یہ اجتماع منعقد فرمایا جس میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دی ، نیز حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب ؒ کو بھی مدعو فرمایا ، اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی صاحبؒ کو بھی شریک فرمایا ۔
یہ اجتماع کئی دن جاری رہا۔ ہم دونوں بھائی روزانہ صبح کوحضرت بنوری رحمۃ اللہ عایہ کے مدرسے میں چلے جاتے ، سارے دن مسائل پر بحث ہوتی رہتی ۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تفصیلی ملاقاتوں کا یہ پہلا موقع تھا جس میں ایک طرف اُن کے فقہی مقام کا کچھ اندازہ ہوا ، اور دوسری طرف اُن کے دلنشین انداز بیان اور خوش خلقی کا بھی عملی تجربہ ہوا۔ اگرچہ اُس وقت سیاسی فضا ایسی تھی کہ اُن پر یہ الزام لگ رہے تھے کہ وہ سوشلسٹ عناصر کے ساتھ سیاسی اتحاد کرکے سوشلزم کی فی الجملہ حمایت کررہے ہیں ، اورانہیں معلوم تھا کہ اس معاملے میں ہمیں بھی اُن کے طرزعمل پرطالب علما نہ اشکال ہے،لیکن نہ اس کاہماری نیازمندی پر کوئی اثر تھا ،اورنہ ان کے اندازو ادا اور خوش اخلاقی پر ۔ وہ بڑی شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے ہوئے فقہی مذاکرے میں کھلے دل کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے ، اوراس قسم کی گفتگو میں سوال وجواب کا جو سلسلہ ہوا کرتا ہے ، وہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ چلتا رہا، البتہ ہمارے استاذ حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بحث ومباحثہ میں قدرے شدت بھی پیدا ہوئی ، لیکن آخرکار ایک مسودے پر اتفاق ہوگیا ، جو ریکارڈ پر لانے کی خاطر میں یہاں نقل کرتا ہوں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
تمہید
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ وہ عقائد، عبادات ، سیاست، معیشت ، معاشرت، اخلاق ، غرض زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق اپنے مستقل اصول وفروع رکھتا ہے جو دنیا کے ہر مذہب وملّت اور نظام زندگی سے ممتاز اور فائق ہیں۔ لہذا وہ کسی بھی مرحلے پر اس بات کو گوارا نہیں کرتا کہ اس کا کسی دوسرے مذہب یا نظام زندگی کے ساتھ لفظی یا معنوی التباس اور تشبہّ پیدا کیا جائے ۔ چنانچہ معیشت کے معاملات میں بھی اسلام کا نظام دنیا کے ہر نظام معیشت سے خواہ وہ سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت اور اشتمالیت بالکل الگ ہے۔
لہٰذا اس مجلس کے نزدیک یہ بات قابل تحقیق نہیں ہے کہ سرمایہ داری یا سوشلزم اسلام کے مطابق ہے یا نہیں ، بلکہ یہ بات مجلس کے نزدیک طے شدہ ہے کہ اسلام دونوں کا مخالف ہے، اگر کسی فرعی مسئلہ میں کوئی اتفاقی اتحاد ہوجائے تو اس کی وجہ سے نہ اس نظام کو اسلام کے مطابق کہاجاسکتا ہے اور نہ اس معمولی یا جزوی ترمیم کے ذریعہ اسے (اسلامی)کہا جا سکتا ہے۔
اس کے بجائے زیر تحقیق یہ ہے کہ موجودہ دور میں انسان کے لئے جو معاشی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ان کا حل اسلامی نظام کی روشنی میں کیا ہے اور وہ سرمایہ داری اور اشتراکیت سے کس طرح ممتاز ہے۔ اس مقصد کے لئے مندرجہ ذیل باتیں اصولی طور پر پیش نظر رکھی جائیں گی :
اصول موضوعہ اور طریقہ کار
۱۔ اسلام کا معاشی نظام جیسا وہ ہے، جدید ترتیب اور تدوین کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔
۲۔ اس ترتیب وتدوین میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے گا کہ اس کو نافذ کرنے کی وہ عملی صورتیں بھی پیش کی جائیں جن میں موجودہ معاشی مشکلات کا صحیح اور قابل عمل حل بھی ہو ، اور ان کی وجہ سے اسلام کے احکام میںذرہ بھر تحریف و ترمیم بھی نہ ہو اور نہ کسی دوسرے معاشی نظریہ کا اثر قبول کیا جائے۔
۳۔ اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی نوے (۹۰) فیصد آبادی فقر وافلاس اور دوسری معاشی مشکلات کا [کی؟] شکار ہے اور ان مشکلات کو حل کرنا ضروری ہے۔
لہذا ان کے حل کے لئے مذہب حنفی کو متن قرار دیتے ہوئے تمام مذاہب اربعہ کا مطالعہ کیا جائے گا اور ضرورت کے مواقع پر جس مذہب میں بھی حل میسر آئے گا اس کو اختیار کیا جائے گا، لیکن:
۴۔ مذاہب اربعہ سے خروج ہر گز نہ کیا جائیگا۔
۵۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ مجلس کسی مسئلہ کا جو حل پیش کرے گی وہ اس صورت میں قابل عمل اور لائق افتاء سمجھا جائے گا جب کہ صحیح اسلامی حکومت قائم ہو جس کے تمام قوانین واحکام اسلامی شریعت کے مطابق ہوں۔
۶۔ اس موضوع پر ایک کتاب مرتب کی جائے گی جس کے شروع میں ایک بسیط مقدمہ ہوگا جس میں اسلام کے قرون اولی (کی) معاشی زندگی کو پیش کیا جائے گا اور باقی کتاب موجودہ فن معاشیات کی ترتیب پر مرتب کی جائے گی۔
۷۔ یہ سارا کام اعلیٰ دینی سطح پر ہوگا ۔ اس کا کسی بھی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہوگا، نہ اسے کسی جماعت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
۸۔ اس کام کی تکمیل کے بعد اسے ہر فرقہ کے علماء کے سامنے پیش کر دیا جائے گا ، اور اس کے بعد اسے اسلامی معاشی نظام کے طور پر شائع کیا جائے گا۔
اراضی کے مسائل
۱۔ اگر اسلامی حکومت کسی شخص کو موات زمین احیاء کے لئے دے اور وہ خود اپنی محنت یا اپنے اجیر خاص کے ذریعہ اس کا احیاء کرے تو وہ خود اس کا مالک ہو جائے گا۔ (لأن من أحیا أرضا میتۃ فھی لہ)
۲۔ جو موات زمینیں سابق حکومتوں نے لوگوں کو دی ہیں اور وہ اب تک آباد نہیں کی گئیں ، اگر دینے کے وقت سے تین سال نہیں گذرے ہیں تو تین سال کی مدت کے ختم ہونے تک ان کے آباد کرنے کا انتظار کیا جائے گا ، اور اگر زمین لینے کی تاریخ سے تین سال گزر گئے ہیں تو ان سے واپس لے کر ان لوگوں کو دیدی جائیں گی جن (کے) پاس زمینیں نہیں ہیں۔ (لما فی الدر المختار: ومن حجّر أرضا ثم أمہلہا ثلاث سنین رفعت إلی غیرہ وقبلہا ہو أحق بہا وإن لم یملکہا ۔۔الخ) (شامی ص ۲۷۸ ج۵)
۳۔ ایسی اسلامی حکومت جس میں اسلامی نظام حکومت دیانتدار افراد کے ہاتھ میں ہو اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو اراضی موات حکومت پاکستان یا انگریزحکومت نے کسی کو بھی دیں مگر لینے والے نے ان کا احیاء نہ خود کیا نہ مزدوروں اور ملازمین سے کرایا بلکہ عقد مزارعت کے طور پر مزارعین کو احیاء کے لئے دے دیں اور مزارعین ہی نے ان کا احیاء کیا، ایسی تمام اراضی کو احیاء کرنے والے مزارعین کی ملکیت قرار دیدے، اور جو مزارعین وفات پا چکے ان کے ورثاء کو مالک قرار دیدے۔ (لأن المعطی لہ لم یملک الأرض بمجرد التحجیر فلم تنعقد المزارعۃ وصار المزارع ہو المالک لأنہ ہو الّذی أحیی الأرض.وأما إذن الإمام فلیس بشرط عند الصاحبین، وأما عند أبی حنیفۃ فالإذن اللاحق یقوم مقام السابق، فإذا أجازت الحکومۃ ذلک وقع الملک للمزارع باتفاقہم)۔
۴۔ جو اراضی موات احیاء سے پہلے کسی کو مدت معلومہ کے لئے کرایہ پر دی گئیں تاکہ کرایہ پر لینے والا زمین کا احیاء بھی کرے اور کاشت بھی اور سالانہ کرایہ آمر کو ادا کرے ایسی زمین کو جب کرایہ دار قابل برداشت بنا لے گا تو وہ خود مالک ہوجائے گا اور کسی قسم کا کرایہ اس پر واجب نہیں ہوگا ، بلکہ جو رقم آمر نے وصول کرلی ہوگی وہ واپس کرنی ہوگی ۔ (لما ذکرنا أن المأذون لہ لا یملک الأرض قبل الإحیاء فلم تنعقد الإجارۃ لعدم الملک وصارت الأرض لمن أحیاہا).
۵۔ اگر موات زمینیں آباد کرنے کے لئے کسی سے یہ معاملہ کیا کہ وہ اس زمین کا احیاء کرے اور أجیر مشترک کے طور پر اس ٹھیکہ کی اجرت بھی مقرر کردی تو یہ احیاء اجیر کی طرف سے سمجھا جائے گا اور اسی کو زمین کا مالک قرار دیا جائے گا اور اس نے آمر سے جو معاوضہ لیا ہوگا وہ واپس کردیا جائے گا۔ (لما فی الدر المختار: استأجرہ لیصید لہ أو یحتطب لہ فإن وقت لذلک وقت وإلا لا .ولو لم یوقت وعین الحطب فسد . وفی رد المحتار __ قولہ جاز لأنہ أجیر وحد وشرطہ – بیان الوقت قولہ: وإلا لا__ أی الصید والحطب للعامل. شامی ص ۵۹ ج ۵)
۶۔ اگر کسی مسلمان حکومت نے کسی مسلمان یا ذمی کی آباد زمین کو غصب کیا اور کسی کو بطور جاگیر دیدیا تو زمینیں ان کے مالکوں کو واپس کی جائیں گی ( لأنہ غصب ولا استیلاء لمسلم علی مسلم)
۷۔ انگریزی حکومت نے جو مملوک اور آباد جاگیریں سیاسی رشوت یا ملک و ملت سے غداری کے صلہ میں مسلمانوں کو دی ہیں ان کی تین صورتیں ہیں (ألف) اگر وہ مسلمانوں کی آباد زمینیں چھین کر دی ہوں تو اسلامی حکومت ان جاگیرداروں سے لے کر سابقہ مالکان کو یا اگر ان (کے) ورثاء معلوم ہوں تو ان کے ورثاء کو دے دے گی۔ اگر مالک یا اس کے ورثاء معلوم نہ ہوں تو حکومت ان کو اپنی تحویل میں لے کر پاکستان کے بے زمین لوگوں پر تقسیم کرے گی۔
(ب) اگر وہ آباد زمینیں غیر مسلموں کی تھیں اور ان سے چھین کر جاگیرداروں کو رشوت یا غداری کے صلہ میں دی گئیں تو اب ان کو جاگیرداروں سے واپس لے کر بطور مال فئی زمین سے محروم لوگوں کو دے دی جائیں گی۔ (ج) اگر وہ زمینیں بنجر (موات) تھیں تو احیاء موات کے احکام جاری ہوں گے جو اوپر گزر چکے ہیں۔
۸۔ اسلامی حکو مت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پیداوار کی نصف سے زائد مثلا دو تہائی مزارع کا حصہ مقرر کردے۔
۹۔ ٹھیکہ (اجارہ) کی صورت میں بھی ٹھیکہ کی رقم کے لئے ایسی حد کی تعیین کر دے جس سے ٹھیکہ دار کی محنت کا مناسب صلہ اس (کو) مل جائے۔
۱۰۔ عقد مزارعت ایک مجتھد فیہ مسئلہ (ہے)۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ عقد فاسد ہے ۔ صاحبین مزارعت کو عقد صحیح قرار دیتے ہیں ۔ جمہور امت کا تعامل بھی یہی ہے، لیکن ایک صحیح اسلامی حکومت اگر یہ محسوس کرتی ہے کہ زمیندار اور کاشتکار کا تعلق کسی بھی طرح ایسے صحیح اسلامی طریقہ پر قائم نہیں ہوتا جو شروط فاسدہ اور زمینداروں کے ظالمانہ طریقہ کار سے آزاد(ہو) تو وہ ضرورت کے وقت یہ حکم جاری کرسکتی ہے کہ زمینوں کو مزارعت کے بجائے اجارہ ارض کے طریقہ پر کاشت کیا جائے۔
۱۱۔ زمینوں اور کارخانوں کی ملکیت پر کوئی تحدید عائد کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ یا لفظ (ضبط؟) ملکیت بالعوض کسی مرحلہ پر جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ پر ابھی غور کیا جارہا ہے۔
۱۲۔ آئندہ احیاء موات کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی جائے جن کے پاس زمینیں نہیں ہیں۔
رہن کے مسائل
جس مرہون زمین میں مرتہن نے انتفاع بالمرہون کی شرط لگائی ہو یا ” المعروف کالمشروط” کے طور پر اس سے انتفاع کررہا ہو وہ رہن فاسد ہے ، لہٰذا زمین مرہون کو راہن کی طرف بلا توقف لوٹایاجائے گا اور زمین پر جتنے عرصہ مرتہن قابض رہا ہے اس کی اجرت مثل مرتہن پر واجب ہوگی اور اجرت مثل کو زر رہن (قرض) میں محسوب کیا جائے گا اور اگر اس کی مقدار زر رہن سے بڑھ گئی ہے تو وہ بھی راہن پر لوٹائی جائے گی۔ (لأن ذلک لیس برہن، وإنما ہو إجارۃ فاسدۃ فیجب أجر المثل لما فی رد المحتار : قال فی التتارخانیۃ ما نصہ: ولو استقرض دراہم وسلّم حمارہ إلی المقرض یستعملہ إلی شہرین حتی یوفیہ دینہ أو دارہ یسکنہا فہو بمنزلۃ الإجارۃ الفاسدۃ، إن استعملہ فعلیہ أجر مثلہ ولا یکون رہنا ۔۔۔ الخ)
۱۲۔ اگر مرتہن نے زمین مرہون راہن کو مزارعت پر دے دی تو یہ رہن باطل ہوگیا، لہٰذا ساری پیداوار راہن کی ہوگی ۔ اور پیداوار کا جو حصہ اس نئے مرتہن کو ادا کیا وہ قرض میں محسوب ہوگا، البتہ اگر بیج مرتہن نے دیا ہو تو اتنا ہی بیج یا اگر مرتہن راضی ہو تو اس کی قیمت راہن ادا کرے گا۔
تجارت کے مسائل
۱۔ سود کی تمام اقسام کو قانوناً ممنوع قرار دیا جائے گا اور بینکوں کا کاروبار شرکت مضاربت کے اصول پر قائم کیا جائے گا اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک بینکوں، بیمہ کمپنیوں اور دوسرے نجی، سرکاری یا نیم سرکاری تجارتی اداروں نے جتنا سود وصول کیا ہے اسے ضبط کر کے غریبوں پر تقسم کیا جائے گا۔
۲۔ قمار اور سٹہ کی جتنی صورتیں رائج ہیں مثلا بیمہ وغیرہ ان سب کو ممنوع قرار دیا جائے گا اور ان کے ذریعہ جو آمدنی اب تک ہوئی ہے اسے ضبط کر کے غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
۳۔ تجارت کو آزاد کیا جائے گا یعنی دارآمد وبرآمد پر چند افراد کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے گا۔
۴۔ غیر مسلم ممالک کے بینکوں میں پاکستان کے سرمایہ داروں کو سرمایہ جمع کرانا ممنوع قرار دیا جائے گا اور موجودہ جمع شدہ رقم کو کسی نہ کسی طرح ملک میں واپس منتقل کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔
۵۔ شراب او ر دیگر اشیاء محرمہ اور سامان تعیش کی درآمد بالکل ممنوع قرار دی جائے گی۔
۶۔ تمام اشیاء صرف میں احتکار (ذخیرہ اندوزی )کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے گا، اور اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرے تو اشیاء محتکرہ کی بیع پر اس کو مجبور کیا جائے گا ۔ (آخذا بقول أبی یوسفؒ فی أن الاحتکار فی کل ما أضر للعامۃ حبسہ. الہدایۃ ص ۴۷۴ ج ۴)
کارخانوں کے مسائل
۱۔ کارخانوں کے ملازمین کی ایسی اجرتیں اسلامی حکومت مقرر کرسکتی ہے جو ایک طرف ان کی نوعیتِ کار کے لحاظ سے ان کی محنت کا مناسب صلہ بھی ہوں اور دوسری طرف ان کو معاشی طور پر خود کفیل ہونے اور آگے بڑھنے میں مدد بھی دیں۔
۲۔ کارخانہ داروں کا ایسا اتحاد جس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچتا ہو، مثلاً کارتیل، مرجر، سیڈیکیٹ وغیرہ کی طرح کی اجارہ داریاں اسلامی حکومت ان کو ممنوع قرار دے گی۔ (لما فی الہدایۃ : ولا یجبر القاضی الناس علی قاسم واحد ، معناہ:لا یجبرہم علی أن یستأجروہ ، لأنہ لا جبر علی العقود، ولأنہ لو تعین لتحکم بالزیادۃ علی أجر مثلہ، ولا یترک القسام یشترکون ، کیلا تصیر الأجرۃ غالیۃ بتواکلہم ، وعند عدم الشرکۃ یتبادر کل منہم إلیہ خیفۃ الفوت ، فیرخص الأجر. الہدایۃ ص ۴۱۵ ، ومثلہ فی البدائع ص ۱۹ ج ۔والعالمگیریہ)
اس مسودے کے بارے میں اصولاً یہ طے ہوا تھا کہ یہ ابھی اپنی ابتدائی شکل میں ہے ، اور اسے دوسرے علماء کرام وغیرہ کے سامنے کسی بڑی مجلس میں پیش کیا جائے گا ، اور مشورے کے بعد اتفاق رائے سے شائع کیا جائے گا ، اور اسے کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ یہ مسودہ فوراً ہی ماہنامہ "الحق”کے شمارے ربیع الاول ۱۳۸۹ھ میں جمعیت علماء اسلام کی مجلس کی طرف منسوب ہوکر شائع ہوگیا جس پر حضرت بنوری قدس سرہ نے ماہنامہ بینات کے شمارہ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۹ ھ میں برہمی کا اظہار فرمایا ۔ اس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر جانبین میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ، اور یہ کام اجتماعی سطح پر آگے نہ بڑھ سکا ۔ اس کے بجائے حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے بینات کی سات قسطوں میں اسلام کے معاشی نظام پرایک فاضلانہ مضمون تحریر فرمایا ، نیز حضرت والد صاحب قدس سرہ کے زیر ہدایت میں نے ایک "معاشی خاکہ” ترتیب دیا جو بعد میں ۱۱۸ علماء کی تصدیق سے” اسلامی نظام میں معاشی اصلاحات کیا ہونگی؟” کے نام سے شائع ہوا جو حضرت والد صاحب ؒ کی کتاب "جواہرالفقہ” میں بھی شائع ہوگیا ہے ۔
چونکہ اُس وقت اس مسودے کو شائع نہ کرنا اس لئے طے ہوا تھا کہ یہ ابھی ابتدائی شکل میں ہے ، اور اس پر ابھی مزید غور ہوگا، اور بعض تجاویز میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے ،اس لئے مجھے یہاں اُسے شائع کرنے میں تأمل تھا ، لیکن چونکہ وہ ایک مرتبہ ” الحق” میں شائع ہوچکا تھا ، نیز اُس کے بارے میں ایک مرحلے پر یہ غلط فہمی بھی ہوگئی تھی کہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا مقالے کو اس مجلس کی کارروائی سمجھ لیا گیا تھا ، جس کی وضاحت میری درخواست پر ماہنامہ” بینات”کے شمارہ ذوالحجہ ۱۴۳۳ھ ہجری میں شائع ہوئی، اس لئے ریکارڈ کی درستی کے لئے اسے یہاں نقل کرنا میں نے نا مناسب نہیں سمجھا، لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ ایک ورکنگ پیپر کی طرح محض ایک ابتدائی خاکہ تھا جس پر مزید کام ہونا تھا ، اس لئے اُس میں جو جزوی تجاویز پیش کی گئی ہیں ، اُن میں سے ہرایک کو حتمی طورپر مجلس کا فیصلہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔
………… جاری ہے
٭٭٭٭٭٭