افتتاح بخاری شریف 1442ھ کے موقع پر خطاب
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ۔۔۔۔۔ خلیل اللہ کرکی۔ متعلم دورئہ حدیث
ذکروفکر |
افتتاح بخاری شریف کے موقع پر خطاب
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا
جامعہ دارالعلوم کراچی میں بھی ، دیگر مدارس کی طرح تعلیمی سال کا آغاز بخاری شریف کے مبارک درس سے ہوتا ہے، اس سال وبائی صورتحال کے پیش نظر داخلہ کارروائی مؤخر کی گئی تھی ، اور بدھ کے دن ۱۴؍ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ ( مطابق ۵ ؍ اگست ۲۰۲۰ء) سے اس کا سلسلہ شروع کیاگیا اور پھر ہفتہ۲۴ ؍ ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ ( مطابق ۱۵ ؍ اگست ۲۰۲۰ ئ) کو جامع مسجد جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری شریف سے درس نظامی کے تمام شعبوںمیں تعلیم کا آغاز کیا گیا ۔
بخاری شریف کا یہ افتتاحی درس رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم نے دیا اور حدیث مسلسل بالاولیۃ سے اپنے درس کا آغاز فرمایا اور بخاری شریف کی پہلی حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے اخلاص نیت کی طرف توجہ دلائی اور پھرطلبہ کو تعلیمی سال گذارنے کے آداب کی تلقین فرمائی ۔اللہ تعالیٰ حضرت والا دامت برکاتہم کی زریں ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)
الحمدللہ نحمدہ و نتستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ونشھد ان سیدنا وسندنا ومولانا محمد عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وسلم تسلیما کثیرا۔ اما بعد ۔
آپ سب سے میرا مشترک خطاب ہے ، مدرسۃ البنات میں بھی ہماری معلمات اور طالبات یہ خطاب سن رہی ہیں ، آج ہمارے تعلیمی سال کا آغاز ہے ، جو بہت تاخیر سے ہوا ہے ، شوال میں ہوجایا کرتا ہے ، لیکن جو حالات پورے ملک میں تھے ، وباء کے حالات تھے ، اس نے سارا نظام درہم برہم کررکھا تھا ۔ مگر الحمدللہ اب ہم آج سے درس نظامی کا سال شروع کررہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے لئے آسان کرے ۔
یوں تو جب دو مہینے کی تعطیلات ہوتی ہیں ، ۱۵؍ شعبان سے تقریباً ۱۵؍ شوال تک تعطیل ہوتی ہے ، دارالعلوم سے طلبہ چلے جاتے ہیں اپنے گھروں کو اور بہت سارے اساتذہ کرام یا تو سفر پر چلے جاتے ہیں یا اپنے گھروں کو تشریف لے جاتے ہیں اور مختلف مشاغل میں مشغول ہوجاتے ہیں تو دارالعلوم خالی خالی ہوجاتاہے ، یہ دو مہینے ہم پر افسردگی کے گذرتے ہیں کیونکہ مدرسہ نام ہے طلبہ اور اساتذہ کا ، عمارتوں کا نام مدرسہ نہیں ہے ، استاد اور طالب علم جہاں پڑھنے کے لئے بیٹھ جائیں وہی مدرسہ ہے ، وہ جزیرہ ہو ، کسی پہاڑ کی چوٹی ہو یا کوئی جنگل ہو یا کوئی محل ہو ، وہی مدرسہ ہے ، مگر یہ طلبہ ہمارے چلے جاتے ہیں تو یہ مدرسہ خالی ہوجاتا ہے اور ہمارے لئے ایک ایک دن گذارنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
الحمدللہ ہمارے یہ طلبہ اب پھر واپس آرہے ہیں اور بہت بڑی تعداد آگئی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی آمد کو ان کے لئے بھی ، ہم سب کے لئے اور دارالعلوم کے لئے اور ملک وملت کے لئے بھی نافع بنائے اور بہت ہی خوشیوں کا اور خوبیوں کا آغاز اس کو بنادے ، آج کا دن حسن اتفاق سے قیام پاکستان کا بھی دن ہے ، رات ۱۲؍ بجے متحدہ ہندوستان کو آزادی ملی ۔ ایک حصہ پاکستان بنا دوسرا حصہ بھارت کا رہا ، چنانچہ ۱۴؍ اگست کا جشن منا یا جاتا ہے ۔ ۱۴؍ اگست اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب میں تقسیم ہند ہوئی تھی ، اس تقسیم ہند میں ہمارے بزرگوں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اور آج ۱۵؍ اگست کا دن ہے ، یوم آزادی کا پہلا دن تھا ،پاکستان کی آزادی کا ، ہمارا درس نظامی کے سال کا آغاز بھی اسی دن سے ہورہا ہے ، اللہ تعالیٰ مبارک کرے ۔
اپنے طلبہ سے کچھ دل کی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے اور میں کہا کرتا ہوں کہ آپ حضرات بڑا مجاہدہ کرکے یہاں مدرسہ میں داخل ہونے کے لئے آئے ہیں ، معمولی مجاہدہ نہیں ہے، آپ اپنے والدین کی آغوش سے جدا ہوئے ، اپنے وطن سے جدا ہوئے، وہاں کی آب و ہوا سے رخصت ہوئے ، ایک قسم کا پردیس ہے سفرکرکے آپ علم دین کے لئے آئے ہیں ، یہ بڑی قربانی ہے اور مجاہدہ ہے : وَاَلَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔(العنکبوت:۶۹)
ان شاء اللہ یہ مجاہدہ آپ حضرات کے لئے دین کے راستوں کا بڑا قوی ذریعہ بنے گا ۔ قرآن نے مجاہدہ پر وعدہ کیا ہے ، آپ کے والدین کا بھی بہت بڑا مجاہدہ ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو ، ان کے بیٹے ان کے کاموں میں مددگار ہو تے ، علم دین حاصل کرنے کے لئے اپنے سے رخصت کیا اور ان کی جدائی کو برداشت کیا اور اساتذۂ کرام کے لئے بھی بہت بڑا مجاہدہ ہے ، طلبہ کے لئے تو ہوتا ہی ہے اساتذہ کے لئے بھی بڑا مجاہدہ ہے کیونکہ طلبہ سبق میں جتنی محنت کرتے ہیں ، اساتذہ اتنی اپنے گھر میں تیاری کرتے ہیں ، ایک گھنٹے کے سبق کے لئے بسا اوقات کئی کئی گھنٹے تیاریاں کرتے ہیں ، تو ایک طویل سفر ہے ، مشکل سفر ہے جو آج سے شروع ہورہا ہے،تعلیمی سفر ہے، اللہ تعالیٰ سے ہمیں مدد مانگنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر قدم پر مدد فرمادے ۔اور آپ جو نکل کر آرہے ہیں دین کے لئے ۔۔۔ اللہ اکبر۔
"من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سھل اللہ لہ بہٖ طریقا الی الجنۃ”سارا مدار نیتوں پر ہے ، ہماری نیت اگر اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ، دنیا کی بڑائی کے لئے نہیں ہے ، عہدے حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے۔ شہرت حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا کے لئے ، اللہ کے دین کو پھلانے کے لئے ، دین کو رائج کرنے کے لئے اور خشیۃ اللہ کے حامل ،قابل اعتماد علماء بننے کے لئے اور بنانے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ معمولی بات نہیں ہے ۔ یہ عام سفروں سے مختلف سفر ہے ، میں آپ کو ایک بشارت دے رہا ہوں اور کیا بشارت دے رہاہوں وہ حدیث میں ہے کہ آج آپ جس نیت سے یہاں آئے ہیں۔ اس نیت کے ساتھ اگر آپ نے اپنے دل کو صاف کرلیا تو یہاں رہتے ہوئے جو مشقت آپ کو اٹھانی پڑے گی ، جو محنت ، کام کریں گے وہ سب عبادت بن جائے گاحتی کہ جو کھانا کھائیںگے وہ عبادت بن جائے گا کیونکہ کھانا کھائیں گے اس واسطے کہ آپ کی توانائی برقرار رہے ، آپ سوئیں گے، مناسب وقت پر سونے کا بھی ثواب ملے گا ، کیونکہ آپ سوئیں گے تو آپ کے اندر توانائی پیدا ہوگی اور نئی امنگیں لے کر آپ بید ار ہوں گے تو کام کرسکیںگے، حتی کہ آپ عصر کے بعد کھیلیں گے اس نیت سے کہ ہماری صحت ٹھیک ہو، تاکہ ہم دین کا کام زیادہ اچھا کرسکیں تو اس کھیل کا بھی ثواب ملے گا ، اللہ تعالیٰ نے سارا انتظام کردیا ہے ۔
طالب علم جب نکلتا ہے اللہ کے لئے ، اور نیت اس کی پکی ہوتو پھر اس کا سارا کام عبادت ہوتا ہے، صبح سے لے کر رات تک ۔ اللھم اجعلنا منھم، اللھم اجعلنا منھم، اللھم اجعلنا منھم۔ آج ان شاء اللہ بخاری شریف کاپہلا درس ہوگا ، بخاری شریف تمام کتب اسلامی میں قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے ، اس پر پوری امت ، عربوں نے ، عجموں نے ،علماء نے ، محققین نے اجماع کیا ہے ___ آج پہلی حدیث پڑھی جائے گی مگر پہلی حدیث سے پہلے ایک کام اور کرلیں اور وہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے، اس میں ایک فائدہ ہے ، اساتذہ کی بھی خواہش ہوا کرتی ہے اور طلبہ کی بھی اور وہ یہ کہ ہم سب مل کر حدیث مسلسل بالاولیۃ پڑھ لیں ، حدیث الرحمۃ مسلسل بالاولیۃ ۔ کیا مطلب ہے؟ ایک حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ، جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا بیان ہے اور اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مسلسل بالاولیۃ ہے ۔ یعنی جن بزرگوں اور اساتذہ سے یہ حدیث مجھے ملی ہے انہوں نے مجھے بہت ساری احادیث دکھائی تھیں اور اپنا ثبت دیا تھا مگر سب سے پہلے مجھے حدیث رحمت سنائی تھی اور ان کے استاذوں نے بھی سب سے پہلے حدیث رحمت پڑھوائی تھی ۔
مجھے تین بزرگوں سے الحمدللہ اس حدیث مسلسل کی روایت کی اجازت حاصل ہے اور تینوں بزرگ اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ، مختصر عرض کرتا ہوں ۱۹۶۴ ء میں ، ۵۶ سال پہلے ، یہ ہمارا پہلا حج تھا ، ہم دونوں بھائی مسجد حرام میں حاضر تھے ، والد محترم مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کے ساتھ ہم نے پہلا حج کیا تھا ، وہاں مسجد حرام میں ایک بزرگ ہوتے تھے ۔”شیخ محمد حسن المشاط المکی المالکیؒ ” بڑے اونچے درجے کے ولی اللہ تھے ، اور ان کا درس مسجد حرام میں جاری تھا ، اور شمالی افریقہ میں ان کے بہت سارے شاگرد پھیلے ہوئے تھے ۔
ان کی خدمت میں ہم دونوں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ ہمیں اپنی روایات کی اجات دے دیجئے ۔ اجازت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی سند سے ہم بھی روایت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساری احادیث کی اجازت دوں گا لیکن سب سے پہلے مسلسل بالاولیۃ میں آپ کو سنادوں ۔ چنانچہ حدیث مسلسل بالاولیۃ ہمیں سنائی اور پوری ثبت کے ساتھ لکھی ہوئی ہمیں دے دی ، سند ہمیں ملی ہے مگر یہ سند سب سے عالی ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے ہمیں معمور فرمائے ۔
دوسرے بزرگ "شیخ عبداللہ بن احمد الناخبی ؒ ” ہیں، یہ جدہ میں تھے اور آج سے ۱۶؍ سال پہلے ۱۴۲۵ ھ ہمیں پتہ چلا کہ جدہ میں ایک بزرگ ہیں ، یمن کے رہنے والے ، ہم نے دوستوں کے ذریعے ان سے وقت لیا، ان کی عمر اس وقت ۱۲۵؍ سال بتائی گئی تھی ، انہوں نے بڑی محبت سے ہمیں اجازت دی ، پرانی طرز کے بزرگ تھے ، بڑا اکرام بھی فرمایا ، لیکن ان کی تواضع اور انکساری دیکھئے، کہاکہ ہمیںبہت خوشی ہوئی کہ آپ آئے، میں اپنی تمام مرویات کی اجازت دوں گا ، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ بھی مجھے اپنی تمام مرویات کی اجازت دیں ، میں شرم سے پانی پانی ہوگیا ، میں تو ان کے شاگردوں کے شاگردوں کے برابر بھی نہیں تھا ، میں نے کہا "میں آپ کو کیسے اجازت دوں؟”میں تو آپ کے شاگردوں کے شاگردوں کے برابر بھی نہیں” فرمایا کہ "پھر میں بھی اجازت نہیں دوں گا” صاف انکار۔۔۔ مجبوراً مجھے یہ مشکل کام کرنا پڑا ، میں نے زبانی اجازت دے دی ، اپنی تمام مرویات کی ، مقرو ء ات کی ، مسموعات کی ، مجازات کی ، کہنے لگے تحریری اجازت دے دیں ، میں نے کہا میرے پاس تو تحریر نہیں ہے ۔ رمضان میں ان کی طرف سے فون آیا کہ "آپ کی تحریر کا انتظار ہے ” تو مجبوراً میں نے ان کو اپنا ثبت بھیجا ، جس میں میری تمام مرویات کی سند یں درج ہیں ، اب اس میں ان کی مرویات کی بھی سند درج ہے ۔ الحمدللہ ۔
ایک تیسرے بزرگ ہیں "شیخ ابوالحسن الفادانی” وہ بھی مکہ مکرمہ میں تھے ۔ ان سے میری ملاقات تو یاد نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنے ثبت میں جن لوگوں کے لئے اجازت تحریر کی ہے، اپنی خاص شفقت سے ان میں میرا نام بھی ذکرکیا ہے ، اور اپنی تمام مرویات ، مسموعات ، مقروء ات کی اجازت تحریری طورپر مجھے بھی عطافرمائی ہے ۔
ان تمام بزرگوں کے حوالے سے آپ لوگوں کو سناتا ہوں ، ان میں پہلی سند "الشیخ محمد حسن المشاط المکی المالکیؒ”کی ہے ، اس واسطے میں ان کی سند ذکر کروں گا۔
ان کی سند جاکر اپنے بزرگوں کے واسطے سے سفیان بن عیینہ تک مسلسل پہنچتی ہے ، آگے حضرت سفیان بن عیینہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں اس میں تسلسل نہیں ہے ، میں وہ حدیث سنا دیتا ہوں ۔
حضرت سفیان بن عیینہ ؒ پراس کا تسلسل ختم ہوگیا ، آگے حضرت سفیان بن عیینہ ؓ تسلسل کے بغیر فرماتے ہیں "عن عمرو بن دینار عن ابی قابوس مولی عبداللہ بن عاص عن عبد اللہ بن عمرو ؓ رضی اللہ عنہ وعنہم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراحمون یرحمہم الرحمٰن تبارک وتعالیٰ ارحموا من فی الارض یرحمْکم من فی السمآء او یرحمُکم من فی السمآئ”
"جو رحم کرنے والے لوگ ہوتے ہیں (اللہم اجعلنا منھم) رحمن ان کے اوپر رحم کرتا ہے ۔ جو لوگ زمین پر ہیں ، مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، نیک ہوں یا بد ، تم لوگ ان پر رحم کرو تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا۔”
ایک خاص بات یہ ہوگئی کہ تعلیم حدیث میں سب سے پہلے استاد کی طرف سے طالب علم کو جو کام ملتا ہے وہ رحمت کا معاملہ ہے اور یہ بہت بڑی بنیادی چیز ہے ، اس کو آپ دل میں جمادیجئے ، اس کی عادت ڈالیں ، رحم کا معاملہ کریں سب کے ساتھ ،شاگردوں کے ساتھ بھی، بزرگوں کے ساتھ بھی، اساتذہ کے ساتھ بھی ، اساتذہ کے ساتھ رحم کا معاملہ یہ ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کریں کہ جس سے ان کو تکلیف پہنچے ۔ "المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ” یہ آسان کام نہیں ہے ، آدمی اگر یہ عادت ڈال لے کہ میں کسی کو تکلیف نہیں دوں گا تو اس کے سارے کام عبادت بن جاتے ہیں ، تو آج سے اس کام عزم کیجئے کہ آپ سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی ، مگر آج کل بہت تکلیف پہنچتی ہے ، طلبہ بہت تکلیف پہنچاتے ہیں اساتذہ کو ، بزرگوں کو۔
ایک تکلیف دینے کا طریقہ ایجاد کررکھا ہے کہ سلام کرو نہ کرو مصافحہ کر و، سلام کرنا سنت مؤکدہ ہے، مصافحہ نہ سنت مؤکدہ ہے اور نہ واجب ہے، مستحب ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ مگر بہت سارے طلبہ کو میں دیکھتا تھا کہ سلام نہیں کرتے تھے اور مصافحہ کرتے تھے اور میں مصافحہ کرنے سے انکار کیا کرتا تھا اور اب تو” کرونا وائرس” نے مصافحے پر خود ہی پابندی لگادی ہے ۔۔ یہ اچھی بات ہوگئی ہے ۔۔ مصافحہ مستحب ضرور ہے اور جب محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں تو گناہ جھڑ تے ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جس کے ساتھ آپ مصافحہ کریں اس کو تکلیف نہ پہنچے اور ساتھیوں کو بھی تکلیف نہ پہنچے ، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ساتھیوں کودھکے دے دے کر مصافحہ کرتے ہیں، یہ حرام ہے ، ناجائز ہے ، ایذاء رسانی ہے ۔
دارالعلوم میں اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جائے اور مشق کرائی جائے ، یہاں آپ حضرات نے بہت کچھ سیکھنا ہے ان شاء اللہ ۔ تربیت اگر نہ ہو تو تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں، جب تربیت نہیں ہوگی تو تعلیم پر عمل نہ ہوگا، جب عمل نہیں ہوگا تو علم بے کار ہوگا، اس واسطے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرنی ہے مثلاً اب تو ہمارے ہاں صف بندی کا اہتمام تین فٹ کے فاصلے پر ہے ، ان شاء اللہ کسی وقت یہ پابندی ختم ہوجائے گی ، مگر ایک پابندی جو شرعی پابندی ہے وہ توآپ کو کرنی ہوگی کہ جب کوئی نئی صف شروع کریں تو بیچ سے شروع کریں، دائیں اور بائیں سے شروع نہ کریں ۔ لائنیں سیدھی ہوں، آگے پیچھے نہ ہوں، وغیرہ وغیرہ اور بیچ میں خلاء نہ ہو ۔ فجر کی نماز ہورہی ہے ، برابر میں نمازنہ پڑھیں بلکہ ہٹ کر پڑھیں ۔
وضوکرتے وقت وضوکے آداب ہیں ، آپ اپنے کمروں میں رہیں گے ، بیت الخلاء جائیں گے تو اس کے بھی کچھ آداب ہیں ، آپ بیت الخلاء صاف کریں اس کو فلش کریں تاکہ گندگی صاف ہوجائے ، بدبو دور ہوجائے، اگر کسی وجہ سے فلش خراب ہے ، تو لوٹوں سے بھر بھر کے اس کو صاف کریں اور جب تک اس کو صاف نہ کردیں باہر نہ نکلیں ، یہ سب چیزیں آپ نے سیکھنی ہیں ، اور جو قدیم طلبہ ہمارے دارالعلوم میں رہ چکے ہیں ، انہوں نے کچھ سیکھا بھی ہے ، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکھائیں، اور میری دارالعلوم کے معزز اساتذہ کرام اور قیم حضرات سے درخواست ہے کہ وہ بھی اپنے شاگردوں کو یہ باتیں سکھانے کا اہتمام فرمائیں ، محبت کے ساتھ شفقت کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عالم باعمل بنائے ۔
دارالطلبہ کے اندر آپ رہ رہے ہیں ایک کمرے کے اندر ، آپ کے کمرے کے ساتھی ہیں، ان سب کا حق ہے ، اس کے کچھ آداب ہیں کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے ، آپ جاگ رہے ہیں مطالعہ کررہے ہیں ، بتی کھلی رکھی ہے ، دوسرا آدمی بیمار ہے ،وہ سونا چاہتا ہے آپ سونے نہیں دے رہے ہیں ، ایسے موقع پر آپ باہر جا کر مطالعہ کرلیں ، اس کو تکلیف نہ پہنچائیں ، غرض یہ سب باتیں سبق کے دوران آپ سیکھیں گے اور دارالطلبہ میں قیم صاحبان اور اساتذہ کرام بھی ، رفتہ رفتہ آپ کو بتائیں گے ۔
یہ کتاب بخاری کی جلد اول کی حدیث ہے ، اصل بات تو یہ ہے کہ اس پہلی حدیث کا درس شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دیتے ، چونکہ اصل شیخ الحدیث دارالعلوم کے وہی ہیں ، ہمارے والد ماجدؒ کی وفات کے بعد ہمارے استاد محترم حضرت مولان سحبان محمود صاحب ؒ نے کئی برس درس دیا ، بڑی پابندی کے ساتھ، وقت کی پابندی کے ساتھ ان کا درس ہوتاتھا اور خوب نبھاکر درس دیتے تھے ۔وقت کی ایسی پابندی کرتے تھے کہ جو قت سبق کا ہوتا تھا اسی وقت داخل ہوتے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں ، درجات بلند فرمائیں ، پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائیں ، دارالعلوم میں ان کی یادگار کے طورپر "باب سحبان” بھی بنایا گیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس محسن کی یاد تازہ رہے ۔
ان کی اچانک وفات ہوئی ، ان کی وفات کے بعد بخاری کا درس اِنہوں نے (شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) دونوں جلدیں پڑھانی شروع کردیں (اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطافرمائیں ، ان کے فیض کو تاحیات جاری رکھیں) اس کے بعد ان کے بہت سارے مشاغل کی وجہ سے ہم نے چاہا کہ ان کا اب کچھ بوجھ ہلکا کرنا چاہئے ، تواب تقسیم ہوگئی ہے کہ جلد ثانی مولانا مفتی محمود اشرف صاحب استاذ دارالعلوم کراچی کے پاس ہے اور جلد اول شیخ الاسلام، شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پڑھاتے ہیں، البتہ جلد اول کے کچھ حصے میرے سپرد کردیئے گئے ہیں ۔
"کیف کان بدء الوحی”یہ حصے بھی میرے ذمے ہیں، اس کے بعد "کتاب الایمان” بھی ہے اس کے بعد "کتاب العلم”ہے ۔ اللہ تعالیٰ آسان کرے ۔یہ باب ہے "کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” ۔
ایک بات سمجھ لیجئے کہ کتابوں (اردو ، فارسی وغیرہ) میں آپ پڑھتے ہیں کہ باب جو ہوتا ہے اس کے ضمن میں کئی سارے مضامین ہوتے ہیں، کئی صفحوں بعد کوئی دوسرا باب آتا ہے لیکن بخاری میں ہر حدیث کے مضمون کا الگ باب ہے ، چنانچہ ایک ایک حدیث سے کئی کئی مسائل نکلتے ہیں ، ہر مسئلے کے لئے الگ باب ذکر کیا گیا ہے ، باب کا عنوان کئی جگہ پر آتا ہے ۔
"باب "کو تین طریقے سے پڑھاجاتا ہے ۱۔ بابٌ ۲۔ بابْ ۳۔ بابُ ۔۔۔ باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” یہ ایک مسئلہ ہے کہ وحی کا آغاز کس طرح ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ۔
اس مسئلہ کے لئے امام بخاری ؒ اب آگے حدیثیں لائیں گے ، امام بخاری کی عادت یہ ہے کہ باب لاکر عنوان قائم کرتے ہیں ، پھر اس کے تحت حدیثیں لاتے ہیں اس سے ترجمۃ الباب کو سمجھنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔
یہ ترجمۃ الباب کا سمجھنا بڑا مشکل کام ہے ، یہ تو بالکل ابتداء ہے، آپ آگے پڑھیں گے کہ امام بخاری کا ترجمۃ الباب سمجھنا کتنا مشکل کام ہے ، امام بخاری نے جو یہ کتاب لکھی ہے یہ صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ فقہ کی کتاب بھی ہے ، مسلم شریف صرف حدیث کی کتاب ہے ، امام بخاری نے اپنا فقہ تراجم میں سمودیا ہے، فقہ البخاری فی تراجمہ ، امام ابوحنیفہ ؒ کی فقہ کو امام محمد نے اپنی کتابوں میں نقل کیا۔ امام بخاری نے اپنی فقہ اپنی کتاب میں ذکر کی ، دعوی ہوتا ہے امام بخاری کی طرف سے کہ یہ مسئلہ یوں ہے ، اس کے لئے حدیثیں لاتے ہیں ، مگر مشکل ہوتا ہے یہ سمجھنا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ کیسے نکلتا ہے ، یہ معمہ ہوتا ہے۔
کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جامع ہے ، جس میں آٹھ قسم کے مضامین ہوتے ہیں ، ان تمام مضامین کی کتاب کو "جامع "کہتے ہیں ، اس میں ایمانیات ہوتے ہیں ، فقہ ہوتی ہے ، پوری زندگی سے متعلق ابواب ہوتے ہیں ، چنانچہ بخاری اور مسلم جامع ہے اور بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں ایمانیات نہیں ہیں بلکہ فقہی مسائل ہوتے ہیں ان کو "سنن” کہتے ہیں جیسے سنن ابوداؤد۔
امام بخاری نے جامع ہونے کے باوجود نہ کتاب الایمان سے شروع کیا ، نہ فقہی مسائل سے شروع کیا ، بلکہ وحی سے شروع کیا ، "وحی” کیسے آئی تھی، یہ بھی نرالہ پن ہے امام بخاری ؒ کا ، اجتہاد خاص ، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سارے عمل خواہ وہ ایمانیات ہوں یا فقہی مسائل ہوں ان سب کی بنیاد "وحی ” ہے تو پہلے وحی سمجھو ۔ "وحی”کیا ہے ، کہاں سے آئی تھی ، کس پہ آئی تھی ، اس کو پکڑا اور اس کے لئے کتاب الایمان سے پہلے پورا ایک باب قائم کیا ،۔۔۔ باب کیف کان ۔۔۔۔الخ ۔
وحی کی ابتداء "غارحرائ” میں ہوئی تھی ، مگر اس حدیث میں کہیں غار حراء کا ذکر نہیں ہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام پر باقاعدہ شریعت کی وحی نازل ہوئی تفصیلی ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام پر وحی آئی تھی اس طرح آپ پر بھی وحی آرہی ہے ۔
تفصیل ان شاء اللہ آپ حضرات اپنے استاد سے پڑھیں گے ، ترجمۃ الباب کی مناسبت کیاہے؟ اس میں مختلف اقوال آتے ہیں ، اور فلاں کی رائے یہ ہے اور فلاں کی رائے یہ ہے ، ایک حدیث کی مناسبت میں کئی اقوال آتے ہیں ، پھر ان کے دلائل اور ان کے جوابات آتے ہیں ۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
کیامناسبت ہے ۔۔ شہد کی مکھی کا باغ میں جانے اور پروانے کے جلنے سے ؟ تو وہ ایسا تعلق ہے کہ مگس جب باغ میں جائے گی تو وہ اسے چوسے گی، اس سے وہ شہد بنائے گی اور شہد کو محفوظ کرنے کے لئے وہ اپنا چھتہ بنائے گی ، چھتہ وہ موم کا بنائے گی اور اس موم سے موم بتی بنے گی اور موم بتی جب روشن ہوگی تو پروانے آئیں گے اور جان دے دیں گے ۔
تو بعض لوگ ایسی مناسبتیں بھی نکالتے ہوں گے ۔۔۔مگر ہمیں امید ہے کہ ایسی مناسبتیں کوئی نہیں نکالے گا ، لیکن امام بخاری کے ابواب کے تراجم اور مضامین کے ساتھ مناسبت بہت بڑا کام ہے اور آپ یہاں سبق میں پڑھیں گے تو مزہ آئے گا۔
کچھ باتیں میں آپ کو نصیحت کے طورپر کہنا چاہتاہوں ، اب آپ کو یہاں رہنا ہے ، دارالعلوم میں ، بہت کچھ سیکھنا ہے ، آج سے طے کرلیجئے کہ سیکھیں گے ، اس میں سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ "المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ "
کسی کو تکالیف پہنچانے کے بہت سے راستے ہیں اور سب سے قریبی راستہ زبان ہے ،دیگر طریقوں سے بھی تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، کیاہوتاہے کہ طالب علم گندگی پھیلادیتے ہیں ، کیلا کھائیں گے اور اس کا چھلکا پھینک دیں گے ، الحمدللہ دارالعلو م کے طلبہ یہ کام نہیں کرتے ، دارالعلوم میں طلبہ کو مشق کرائی جاتی ہے ،جگہ جگہ ڈسٹ بین رکھے ہوئے ہیں ان میں ڈالیں ، چنانچہ قدیم طلبہ اس کے عادی ہیں ،وہ یہ کام کرتے ہیں، ان کو دیکھ کر نئے طلبہ یہ کام کرتے ہیں اور یہاں اساتذہ یہ کام کرتے ہیں اور میں بھی کرتا ہوں، جب کوئی چیز پڑی رہتی ہے میں جاکر ڈسٹ بین میں ڈالتا ہوں ، اس طریقہ سے آہستہ آہستہ عادت بن جاتی ہے کیونکہ گندگی سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ، حدیث میں آتا ہے کہ کسی شخص نے راستے میں ایک کانٹے دار درخت کو جو راستے میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتاتھا کاٹ دیا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی۔ تو دوسرے مسلمانوں کو تکلیف سے بچانا شعب الایمان میں سے ہے ۔”اماطۃ الاذی عن الطریق” راستے سے تکلیف دہ چیز اٹھانا، یہ شعب الایمان میں سے ہے تو اس قسم کی تمام چیزوں کو آپ لوگوں نے یاد رکھنا ہے اور عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطافرمائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔