ڈاکٹر محمد حسان اشرف عثمانی
آپ کا سوال
قارئین صرف ایسے سوالات ارسال فرمائیں جو عام دلچسپی رکھتے ہوں اور جن کاہماری زندگی سے تعلق ہو، مشہور اور اختلافی مسائل سے گریز فرمائیں …………………………(ادارہ) |
سوال : فقہاء احناف نے عاشوراء کے روزے کے متعلق فرمایا کہ صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے ۔ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں محرم کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھا ہو ۔ تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل مکروہ تھا ؟
جواب : اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تا حیات دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے ، لیکن آخر عمر میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرف متوجہ کیاگیا کہ آپ نے عبادات میں یہود ونصاریٰ کی موافقت اور مشابہت سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جبکہ یہود دسویں محرم کو روزہ رکھتے ہیں اور مسلمان بھی دسویں محرم ہی کو روزہ رکھتے ہیں ، جس سے ان کی مشابہت لازم آرہی ہے تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر اگلے سال تک اللہ تعالیٰ نے زندگی دی تو اگلے سال نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا؟لیکن اگلے سال محرم آنے سے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرماگئے ، لہٰذا فقہاء احناف ؒ نے جو یہ بیان کیا کہ صرف اکیلا دسویں محرم کا روزہ رکھنا پسندیدہ نہیں بلکہ خلافِ اولی ہے اس کی اصل وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی خواہش ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے ظاہر فرمائی تھی ۔ واضح رہے کہ فقہاء احناف نے جو صرف دسویں محرم کے روزہ کو مکروہ لکھا اس مکروہ سے مراد خلافِ افضل اور خلافِ اولیٰ ہے ۔ ورنہ خالی عاشورہ کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے نہ ممنوع ہے ، نہ مکروہ ہے ۔(صحیح مسلم : ۱: ۷۹۷ ، العرف الشذی ۲: ۲۵۵)
سوال : صرف نویں محرم کا روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟اور کیا اکیلا نویں محرم کا روزہ مکروہ ہے ؟اگر کوئی شخص صرف نویں محرم کا روزہ رکھے تو کیا اسے عاشورا کی فضیلت حاصل ہوگی؟
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد دوسرے تمام مہینوں سے افضل روزہ محرم کے مہینہ کا روزہ ہے ۔لہٰذا محرم کے مہینہ میں کسی بھی دن روزہ رکھنا مکروہ نہیں۔اس لئے صرف نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی بلاکراہت جائز ہے ۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نویں محرم کو روزہ رکھنے سے عاشورہ کا ثواب حاصل ہوگا یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں اور عاشوراء کی اصل فضیلت اسی صورت میں حاصل ہوگی جب دسویں تاریخ کو روزہ رکھا جائے اور بہتر ہے کہ نویں محرم کے ساتھ دسویں محرم کا روزہ رکھا جائے ، یا دسویں محرم کے ساتھ گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے یعنی آدی دوتاریخوں کا روزہ رکھے ۔ اس لئے اصل حکم تو یہی ہے کہ جمہور کے مذہب کے مطابق عمل کیا جائے اور عاشوراء کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق دو روزے اکٹھے رکھے جائیں ۔واضح رہے کہ بعض ائمہ کرام نے جو یہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول (فاذا کان العام المقبل ان شاء اللہ صمنا الیوم التاسع) مختلف احتمال رکھتا ہے اور اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرطِ زندگی اگلے سال صرف نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم فرمایا تھا ۔ یہ قول چونکہ جمہور کے نزدیک مرجوح ہے اور علماء محققین نے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ اس قول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم فرمایا ہے ، اس لئے اس قول کو بنیاد بناکر صرف نویں محرم الحرام کو عاشوراء قرار دینا جمہور کے نزدیک درست نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ۶:۳۶۴۔ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری : ۱۷ :۱۳۴ )
سوال : دسویں محرم کے ساتھ نویں یا گیارہویں محرم کا روزہ ملانے کے بارے میں فقہائے احناف کا کیا موقف ہے ؟ آیا انہوں نے دونوں کو کراہت سے بچنے کے لئے مساوی قرار دیا ہے ؟ اس بارے میں فقہائے احناف کی کیا تصریحات ہیں؟
جواب : فقہاء احناف رحمہم اللہ کی تصریحات کے مطابق مذکورہ مشابہت سے بچنے کے لئے دسویں محرم کے ساتھ نویں یا گیارہویں محرم کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے ۔
بہشتی زیور میں ہے :
"محرم کی دسویں تاریخ کوروزہ رکھنا مستحب ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو کوئی یہ روزہ رکھے اس کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ اور اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے صرف دسویں کو روزہ رکھنا مکروہ ہے۔(یعنی خلافِ اولیٰ ہے)”(فتح القدیر۔۲:۳۵۰،فتاویٰ قاضی خان:۱:۱۰۱)
سوال : بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ "افضل یہ ہے کہ دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کو ملایا جائے کیونکہ مستند روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم التاسع من المحرم کے روزے کا عزم فریا تھا اور روایات میں "أو بعدہ یوما”کی جو زیادتی ہے وہ متکلم فیہ ہے ” تو کیا واقعۃً یہی صورت افضل ہے کہ یہود کی مشابہت اور کراہت سے بچنے کے لئے دسویں محرم کے ساتھ بجائے گیارہویں محرم کا روزہ رکھنے کے نویں محرم کا روزہ رکھا جائے؟
جواب : جیسا کہ عرض کیاگیا ، جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ عاشوراء کی اصل فضیلت اسی صورت میںحاصل ہوگی جب دس محرم کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھا جائے ، ورنہ دس محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ رکھ لیا جائے۔ نیز روایات میں بھی دونوں باتیں مروی ہیں۔ نیز یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح مروی ہیں۔ لیکن محدثین کرام نے موقوف روایت کو زیادہ صحیح قرار دیاہے جس میں نویں محرم کے روزے کا ذکر ہے ، گیارہویں محرم کے روزے کا اس میں ذکر نہیں ، نیز نویں تاریخ کے روزے میں کسی کا اختلاف نہیں جبکہ گیارہویں کے روزے میں بعض ائمہ کا اختلا ف ہے ، اس کے علاوہ روایتِ مرفوعہ جس میں "او بعدہ” (یعنی گیارہویں تاریخ کے روزے) کا ذکر ہے اس کو ایک راوی محمد بن ابی لیلیٰ کی وجہ سے متکلم فیہ قرار دیاگیا، اس لئے اختلاف سے بچنے کے لئے اگر نو محرم اور دس محرم کے روزے کو دس اور گیارہ محرم کے روزے کے مقابلہ میں افضل کہا جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔(السنن الکبریٰ للبیھقی : ۴: ۲۸۷)
سوال : کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ کسی صحابی یا صحابیہ کا نکاح ماہ محرم میں ہوا ہو ، برائے مہربانی حوالہ دیکر نام بتادیں ۔
جواب : کافی تلاش کے باوجود ہمیں محرم کے مہینے میں کسی صحابی کے نکاح سے متعلق کوئی حوالہ نہیںملا تاہم محرم میں نکاح بلاشبہ جائز ہے ، اس کے لئے کسی صحابی یا صحابیہ کے نکاح کے ثبوت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
سوال : اگر ہم ربیع الاول یا محرم میں کچھ پکاکر محلے میں یا اپنے قریبی رشتہ داروں میں بانٹتے ہیں تو وہ نیاز کا کھانا کہلاتا ہے حالانکہ ہم نے اس پر نیاز نہیں دلائی ہوتی تو کیاپھر بھی وہ نیاز کا کھاناکہلائے گا؟
جواب : اگر کوئی ربیع الاول یا محرم میںکھاناپکانا ، بانٹنا ، اور کھلانا شرعاً ضروری سمجھ کر کرتا ہے ، یا یوں سمجھتا ہے کہ خاص اس مہینہ میں ایسا کرنا ثواب ہوگا ، باقی مہینوں میں نہ ہوگا تو یہ بدعت ہے ، اس سے بچنا لازم ہے ۔(مأخذہ امداد السائلین ج :۱ ص :۱۷۵)
تاہم اگر کھانا پکانے ، بانٹنے اور کھلانے میں کسی مخصوص دن مثلاً بارہ ربیع الاول ، دس محرم وغیرہ کی تعیین اور التزام نہ کیا جائے اور کسی نذر و نیاز کی نیت بھی نہ ہو، بلکہ خود کھانے اور محلے والوں ، اور رشتہ داروں کو کھلانے کی نیت ہو تو فی نفسہٖ یہ عمل درست ہے اور اس کا کھانا بھی جائز ہے ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بارہ ربیع الاول یا دس محرم کو اگر کسی نے مخصوص نظریہ سے ہٹ کر اتفاقاً کسی وجہ سے کوئی کھانا پکالیا یا لوجہ اللہ بانٹ دیا تو یہ فی نفسہٖ جائز ہے ، تا ہم ان دنوں میں چونکہ عموماً مخصوص نظریہ یا رسم کے تحت کھانا پکایا جاتا ہے اور بانٹ دیا جاتا ہے ، اس لئے اس کے اہتمام سے بچنا بہتر ہے ۔
سوال : ساس ،سسر یا نندوں کا کام کرنا کیا بہو کی ذمہ داری ہے اور اس پر فرض ہے ؟
جواب : بہو پر ساس ، سسر اور نندوں کی خدمت کرنا شرعاً لازم نہیں ، البتہ ساس ، سسر کی قدر وعزّت اور احترام اپنے والدین کی طرح کرنا چاہئے ، لہٰذا اگر اپنی مرضی اور خوش دلی سے اُن کی خدمت کرے تو بڑی سعادت کی بات ہے ، اور باعثِ اجر وثواب ہے ، اور نندوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہئے ، یہی اچھی مسلمان عورت کی علامت ہے ۔
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک دوست کی ہارڈوئیر (آئرن اسٹور)کی دکان ہے ، اس نے اس کے ساتھ چھریاں ، قینچیاں تیز کرنے والی مشین لگائی ہوئی ہے ، ہوتا یہ ہے کہ محرم کے دنوں میں شیعہ حضرات ماتم کے لئے چھریاں ، پترے وغیرہ تیز کروانے کے لئے آتے ہیں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان دنوں میں ماتم کے لئے چھریاں تیز کرنا (خاص طورپر جبکہ معلوم بھی ہو کہ یہ شیعہ ہے یا یقینی طورپر تو معلوم نہ ہو مگر چونکہ اکثر ان دنوں میں شیعہ لوگ ہی کثرت سے چھریاں تیز کرواتے ہیں )جائز ہوگا؟ اور کیا ان سے حاصل شدہ آمدنی جائز اور حلال ہوگی؟
واضح رہے کہ عام دنوں میں تو یہ کام اتنا زیادہ نہیں ہوتا ، قربانی اور محرم کے دنوں میں یہ کام بڑھتا ہے ۔
جواب : چُھری ، پترے وغیرہ جائز اور ناجائز دونوں کاموں کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کو تیز کرنا جائز ہے اور ان سے حاصل شدہ آمدنی بھی جائز ہے ، البتہ محرم کے دنوں میں اگرکسی شخص کے بارے میں یقینی طورپر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ شیعہ ہے اور چُھری ، پتر ا وغیرہ کسی ناجائز کام میں استعمال کرے گا تو اس سے اجتناب کرنابہتر ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭